اسلام آباد ، 24 سالہ لڑکی سونیا کے قتل کے مقدمے میں سزا پانے والے ملزم شہزاد کی سزا کے خلاف اپیل پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

عدالت نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے پر سوالات اٹھاتے ہوئے ملزم کو 25 سال قید بامشقت کی سزا دینے کے جواز کو بلاجواز قرار دیا ہے اور کیس کو دوبارہ ٹرائل کورٹ میں بھیج دیا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے 8 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو 45 دن کے اندر وجوہات پر مبنی نیا فیصلہ کرنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے کہا کہ ملزم شہزاد کو قتلِ عمد کے جرم میں سزائے موت کیوں نہیں دی گئی، اس بات کی وضاحت ٹرائل کورٹ نے نہیں کی۔

ملزم شہزاد نے 2020 میں سونیا کو شادی سے انکار کرنے پر قتل کر دیا تھا۔ مدعی کے مطابق، شہزاد نے پانچ ماہ تک سونیا کا پیچھا کیا اور پھر رشتہ بھیجا، لیکن سونیا نے انکار کر دیا۔ اس پر شہزاد نے سونیا اور اس کے والد کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔ 30 نومبر 2020 کو صبح 9:30 بجے سونیا کو سر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ جائے وقوعہ سے ملنے والے گولی کے خول اور ملزم سے برآمد ہونے والے پستول سے ثابت ہوا کہ یہ گولی شہزاد کے پستول سے فائر کی گئی تھی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے اپنے فیصلے میں ملزم کو 25 سال قید بامشقت دینے کی کوئی ٹھوس وجہ پیش نہیں کی۔ عدالت نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کا یہ فرض تھا کہ وہ قتل کے مقصد، گواہوں کی شہادت اور ملنے والے شواہد کی بنیاد پر سزا کی وضاحت کرتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سیکشن 302 سی کے تحت 25 سال قید کی سزا دی، جو کہ صرف ان مقدمات میں دی جاتی ہے جہاں قصاص کی سزا نہ دی جا سکتی ہو۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس بات پر سوال اٹھایا کہ کیا اس کیس میں سیکشن 302 سی کے تحت سزا دی جا سکتی تھی۔ ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کی جانب سے سزائے موت کو نظر انداز کرنے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ عام طور پر قتل کی سزا موت ہوتی ہے، اور اگر مخصوص حالات ہوں تو سزائے موت کو کم کر کے عمر قید دی جا سکتی ہے، لیکن ٹرائل کورٹ نے اس اہم اصول کو نظر انداز کیا۔عدالت نے واضح کیا کہ سزا کا تعین کرتے وقت بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے، اور اگر سزائے موت میں کمی کی جائے تو اس کی وجوہات بہت مضبوط ہونی چاہئیں۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کو دوبارہ ٹرائل کورٹ میں بھیجتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ فریقین کو ایک مرتبہ پھر سماعت کا موقع دے اور 45 دن میں اس کیس کا وجوہ پر مبنی فیصلہ کرے۔

رحم کی اپیلوں کی منظوری، آرمی چیف کی ہمدردی، انصاف کیلیے فوج کے عزم کا ثبوت

سزا معافی کا فیصلہ،فوجی عدالتوں پر تنقید کرنیوالوں کے منہ پر زبردست طمانچہ

سزا معافی کا فیصلہ،فوجی عدالتوں پر تنقید کرنیوالوں کے منہ پر زبردست طمانچہ

Shares: