افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان حکومت کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے طالبان حکومت کے نائب وزیر خارجہ عباس ستانکزئی کو افغانستان چھوڑنا پڑا۔
برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق، عباس ستانکزئی نے 20 جنوری 2025 کو افغان صوبے خوست میں ایک مدرسے کی گریجویشن تقریب میں خطاب کرتے ہوئے طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی کو شریعت کے خلاف قرار دیا تھا۔انہوں نے اس بات پر تنقید کی کہ افغانستان کی 40 ملین کی آبادی میں سے 20 ملین خواتین ہیں جنہیں تعلیم کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے، اور یہ فیصلہ شریعت کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ عباس ستانکزئی نے کہا تھا کہ اس پابندی کے نتیجے میں ایک پوری نسل کو علم حاصل کرنے سے روکا جا رہا ہے، اور یہ ناانصافی ہے۔
انہوں نے اس تناظر میں یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ کیا حشر کے دن ہم سب ایک ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے، جہاں ہم بے بس ہوں گے اور لڑکیوں کے حقوق کے بارے میں سوالات اٹھیں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو نہ صرف تعلیم سے محروم کیا گیا ہے بلکہ ان کے وراثتی حقوق، شادیوں کے فیصلے، اور دیگر اہم حقوق بھی سلب کر لیے گئے ہیں۔عباس ستانکزئی نے مزید کہا کہ لڑکیوں کو نہ صرف اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ انہیں مساجد اور دینی مدارس تک میں بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان کی جانب سے تعلیم کے دروازے بند کرنے کے لیے کوئی قابل قبول جواز نہیں ہے اور نہ کبھی ہوگا۔انہوں نے نبی کریم ﷺ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ ﷺ کے دور میں خواتین اور مردوں دونوں کے لیے علم کے دروازے کھلے تھے، اور یہ ہمارے لیے ایک سبق ہے کہ ہم خواتین کو علم حاصل کرنے کا حق دیں۔
رپورٹ کے مطابق، طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے عباس ستانکزئی کے خلاف گرفتاری اور سفری پابندیوں کے احکامات جاری کیے جس کے بعد عباس ستانکزئی کو متحدہ عرب امارات فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ عباس ستانکزئی نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ وہ صحت کی وجوہات کی بنا پر دبئی گئے ہیں، تاہم طالبان حکومت نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔اس واقعے نے افغانستان میں خواتین کے حقوق اور تعلیم کے معاملے پر مزید سوالات اٹھا دیے ہیں، اور عالمی سطح پر طالبان کی پالیسیوں پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔








