عدیل اکبر کی تدفین کے وقت عدیل کا بھائی شرجیل میرے ساتھ کھڑا تھا جبکہ دوسرے نمبر پر سی پی او گوجرانوالہ ایاز سلیم اور تیسرے پر آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی۔ عدیل کی موت کی خبر سے لیکر جنازے تک سارے تجزیہ کار چھٹی نہ دینے کی وجہ بتا کر علی ناصر رضوی کو ملزم ڈکلئیر کرچکے تھے۔ سینکڑوں سوشل میڈیا پوسٹوں میں آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی کے مرحوم عدیل اکبر کے ساتھ تحقیر آمیز رویے اور چھٹی نہ دینے کو ٹاپ سٹوری ڈسکس کیا جارہا تھا۔ سوشل میڈیا پوسٹوں کا اثر تھا کہ تدفین کے موقع پر میں نے علی ناصر رضوی کو عدیل کے ملزم کے طور پر دیکھااور سلام تک نہ لیا۔ بعد از تدفین جب علی ناصر رضوی شرجیل کو گلے لگا کر روتے ہوئے بار بار کہہ رہا تھا کہ وہ عدیل کے اس طرح جانے سے شدید دکھ کی کیفیت میں ہے اور اس غم کو ایسے ہی محسوس کر رہا ہے جیسے اس کا اپنا بیٹا چلا گیا۔ میں نے بہت غور سے علی رضوی کے الفاظ اور چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا کہ ان الفاظ میں نوجوان آفیسر عدیل کو کھونے کا دکھ ہے یا علی ناصر رضوی نے عدیل کے ساتھ کوئی بدتمیزی یا چھٹی نہ دیکر جو زیادتی کی ہے اس کا پچھتاوا ہے۔ علی رضوی کے الفاظ اور چہرے کے تاثرات بتارہے تھے کہ اسے واقعی عدیل کے اس طرح دنیا سے رخصت ہوجانے کا شدید دکھ ہے۔
یہ وہی علی ناصر رضوی ہے جس کے بارے گزشتہ ماہ مرحوم عدیل اکبر کوہسار مارکیٹ میں کھانے کی ٹیبل پر تعریف کر رہے تھے کہ رضوی صاحب اسے نہ صرف بلوچستان سے اسلام آباد لائے بلکہ شولڈر پرموشن کے ساتھ دیگر ایس پی ایز کے برابر پوسٹنگ دے کر اعتماد کا اظہار کیا۔ ممکن ہے کہ علی ناصر رضوی نے ڈیوٹی پر زیروٹالرینس پالیسی اپنائی ہو لیکن ابھی تک کہیں بھی ان کی بدنیتی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ بلوچستان سے اسلام آباد تبادلہ کرواکر مین سٹریم میں آنے کا موقع فراہم کیا۔جہاں تک علی ناصر رضوی کے تلخ رویے کا کہا جارہا ہے تو میری معلومات کے مطابق جب سے عدیل اکبر اسلام آباد آیا ہے اس دوران کم و بیش 20دن کیلئے علی رضوی بیرون ملک تھے اس لیے مختصر پوسٹنگ میں اختلافات کی باتیں ماورائے عقل ہیں۔
سوشل میڈیا کے”دانشوڑوں“ کا کہنا تھا کہ آئی جی اسلام آباد نے عدیل اکبر کو ترقی سے محروم کرنے کی دھمکی دی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بیوروکریسی کی معمولی سمجھ بوجھ والے کو بھی معلوم ہے کہ علی ناصر رضوی تو اس بورڈ کیلئے عدیل کی اے سی آر لکھ ہی نہیں سکتا تھا۔ جہاں تک علی ناصر رضوی کے سخت رویے کا تعلق ہے اسلام اباد پولیس میں پوسٹڈ پی ایس پی افسران سے لے کر ڈی ایس پی اور انسپیکٹر تک کے بہت سارے افسران سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ علی ناصر رضوی کے رویے بارے پوچھا تو سب کی طرف سے ملتا جلتا جواب ملا کے وہ اپنے افسران اور ماتحت عملے کا بہت خیال کرتے ہیں زیادہ سے زیادہ اس طرح ڈانٹتے ہیں کہ ”جے میں تہاڈے تو وڈی عمر دا ہو کے نہیں تھکدا تے تہانوں جوانی وچ ای تھکن اے۔ ”
عدیل اس سے قبل بلوچستان میں جھوٹے الزامات، جھوٹی انکوائیریاں اور سب سے بڑھ کر ترقی سے محرومی جیسے بہت بڑے بڑے غم برداشت کرچکا تھا۔ایمانداری، اصول پرستی، وردی کی عزت اور حلف کی پاسداری کی قیمت کرپٹ سنئیر کی طرف سے رپورٹ خراب کرنے اور ترقی سے محرومی برداشت کی لیکن اصولوں پر سمجھوتا نہ کیا۔ مرحوم عدیل اکبر پر
بلوچستان میں زیارت کی پوسٹنگ کے دوران لگائے کی الزامات کو ڈی آئی جی عبدالغفار قیصرانی نے بے بنیاد قرار دیتے ہوئے  عدیل اکبر کو کلئیر کردیا تھا۔ عبدلغفار قیصرانی کی ایمانداری اور اصول پرستی کا زمانہ معترف ہے اس لیے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے بھی انکا فیصلہ من و عن تسلیم کیا تھا۔
گذشتہ تین دنوں میں، میں نے درجنوں پی ایس پی افسران سے ملاقاتیں اور ٹیلیفونک رابطے کیے تو مجھے اس بات کا اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ یہاں پی ایس پی افسران اچھی پوسٹنگ کے حصول کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، ہر کوئی ”کی پوسٹ” پر جانے کیلئے بیتاب ہے اور اس مقصد میں کامیابی کیلئے اس سیٹ پر موجود ساتھی افسر کو نیچا دکھانے اور گرا کر اپنی باری لینا چاہتا ہے۔
سیٹ کے حصول کیلئے اپنے ساتھی افسران پر ہر طرح کے الزامات لگانے اور کیچڑ اچھالنے میں باؤلے ہوئے پڑے ہیں۔عدیل اکبر اگر علی ناصر رضوی سے اس قدر تنگ ہوتا تواس کے پاس کہیں اور پوسٹنگ کروانے سمیت بہت سارے آپشنز تھے لیکن مبینہ خود سوزی کے محرکات کا تعلق شائد ترقی سے محرومی سمیت دیگر معاملات سے تھا کیونکہ عدیل اکبر کی کئی سال سے مسلسل غمگین شاعری اور انکے ذہنی معالج کی رائے کے مطابق عدیل اکبر لمبے عرصے سے ذہنی دباؤ کا شکارتھے،ماہر نفسیات کے مطابق خودسوزی سے ایک دن قبل عدیل اکبرکے الفاظ تھے کہ انہیں شدید سٹریس ہے اور اس سٹریس کا تعلق پوسٹنگ یا ڈیوٹی سے نہیں کسی انجانے خوف سے ہے۔خبروں میں آنے کیلئے درجنوں افراد دوست بن کر من گھڑت کہانیاں سنا رہے ہیں۔ بہت سارے نوجوان افسران بھی سنی سنائی باتوں پر بنا ثبوت بے بنیاد الزامات پر مبنی جذباتی پوسٹیں لگا رہے ہیں۔
نوجوان افسران سمیت تمام سوشل میڈیا ”دانشوڑوں ” سے گزارش ہے کہ سستی شہرت کے لیے ڈرٹی گیم کا حصہ نہ بنیں۔ آئی جی اسلام آباد کی کمانڈ کے خواہش مند پی ایس پی افسران کی خوشنودی کے لیے علی ناصر رضوی کو بلاوجہ ملزم بنا کر پیش نہ کیا جائے۔سائبر کرائم ایجنسی کو چاہئے کہ سستی شہرت اور ویوز کیلئے بنا ثبوت "پولیس کمانڈر” کی کردار کشی کرنے والے عناصر کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم عدیل کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اس کے ورثاء کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین










