پاکستان کی تاریخ کئی سانحات کی گواہ ہے، لیکن کچھ سانحات ایسے ہیں جو زخم بن کر رہ جاتے ہیں، اور کچھ ایسی سازشیں جو قوم کے شعور پر حملہ کرتی ہیں۔ لاشوں کی سیاست، جسے آج کے دور کی سب سے مکروہ اور شیطانی حکمت عملی کہا جا سکتا ہے، ان ہی سازشوں میں سے ایک ہے۔ یہ سیاست کسی نظریے کی جنگ نہیں بلکہ خوفناک اور خطرناک سازش ہے، جس کا مقصد نہ صرف عوام کو گمراہ کرنا بلکہ ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا ہے۔ 9 مئی اور 26 نومبر اس شیطانی کھیل کی دو بدترین اور واضع مثالیں ہیں، جو سیاست کے نام پر پاکستان کی سالمیت پر حملہ تھے۔

9 مئی اور 26 نومبر کو تحریک انتشار کے نام نہاد رہنماؤں نے ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جو ملک کو خانہ جنگی کی دہلیز پر لے جائے۔ ان کے منصوبے کا بنیادی مقصد تھا خون بہے، لاشیں گریں، اور اس فساد کو عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جائے۔ 9 مئی کو قومی املاک اور دفاعی تنصیبات پر حملے کیے گئے، جبکہ 26 نومبر کو قتل و غارت گری کے جھوٹے بیانیے کو فروغ دیا گیا۔ یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی، جس کا مقصد دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ پاکستان ایک ناکام ریاست بن چکا ہے۔

لاشوں کی سیاست کے اس کھیل کو ہوا دینے میں سب سے بڑا کردار ان ڈیجیٹل دہشت گردوں کا ہے، جو سوشل میڈیا پر جھوٹے بیانیے عام کرتے ہیں۔ یہ عناصر، جو بظاہر آزاد صحافت کے علمبردار بنتے ہیں، درحقیقت پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ان کا مقصد نہ صرف عوامی شعور کو مسخ کرنا ہے بلکہ ریاستی اداروں کو کمزور کرنا بھی ہے۔ 26 نومبر کے بعد جھوٹے بیانیوں اور جعلی خبروں کا جو طوفان کھڑا کیا گیا، اس نے واضح کر دیا کہ یہ عناصر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

تحریک انتشار کے رہنماؤں نے احتجاج کو پرتشدد بنانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا۔ علی امین گنڈا پور اور دیگر نے کھلے عام “مارنے اور مرنے” کی باتیں کیں، جبکہ اس مارچ سے قبل جو افغانی اسلحے سمیت گرفتار ہوئے انہوں نے ان کے ناپاک ارادوں کو بے نقاب کر دیاہے کہ یہ اسلحہ مظاہرین کے ہاتھوں قتل عام کے لیے استعمال کیا جانا تھا، تاکہ پاکستان میں بدامنی کی ایک ایسی لہر پیدا کی جا سکے جو قابو سے باہر ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی مہذب معاشرے میں اس طرح کی دہشت گردی کو سیاست کہا جا سکتا ہے؟

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نہایت پیشہ ورانہ حکمت عملی سے اس انتشار کو قابو کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کافی ہے؟ ان جھوٹے پراپیگنڈہ کرنے والوں، چاہے وہ سیاستدان ہوں صحافی ہوں یا سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہوں کو کب قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا؟ یہ عناصر پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی سازش میں مصروف ہیں اور ان کے خلاف فوری اور سخت کارروائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

یہ جھوٹا پروپیگنڈہ صرف وقتی فساد نہیں بلکہ پاکستان کی ریاست کے لیے ایک طویل مدتی چیلنج بن سکتا ہے۔ اگر اس جھوٹ کو بے نقاب نہ کیا گیا تو یہ سازشی عناصر مستقبل میں مزید شدت سے حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ حکومت،ریاست، عوام، اور میڈیا مل کر ان عناصر کے خلاف سخت موقف اپنائیں۔کیونکہ لاشوں کی سیاست دراصل پاکستان کی سالمیت پر ایک حملہ ہے۔ یہ کوئی معمولی سیاسی کھیل نہیں بلکہ ایک منظم عالمی سازش ہے، جس کا مقصد پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچانا ہے۔ قوم کو اس وقت اتحاد اور ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ ان سازشوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور ان کے پس پردہ عناصر کو بے نقاب کرنا اور ذمہ دران کو سخت سزا دینا ہی پاکستان کے وقار اور استحکام کا واحد راستہ ہے۔ یہ وقت کسی نرمی یا رعایت کا نہیں بلکہ دشمنان وطن کو ہر محاذ پر شکست دینے کا ہے۔

پی ٹی آئی مظاہرین کے تشدد سے متاثرہ پنجاب رینجرز کے جوانوں کے انکشافات

سروسز بیچنے والیوں سے مجھے یہ فتوی نہیں چاہیے،سلمان اکرم راجہ کا بشریٰ کو جواب

پی ٹی آئی کا ہلاکتوں کے حوالے سے جھوٹا پروپیگنڈا بے نقاب

احتجاج ،ناکامی کا ذمہ دار کون،بشریٰ پر انگلیاں اٹھ گئیں

پی ٹی آئی کا ہلاکتوں کا دعویٰ فیک نکلا،24 گھنٹے گزر گئے،ایک بھی ثبوت نہیں

مظاہرین کی اموات کی خبر پروپیگنڈہ،900 سے زائد گرفتار

شرپسند اپنی گاڑیاں ، سامان اور کپڑے چھوڑ کر فرار ہوئے ہیں ،عطا تارڑ

مبشر لقمان کی وزیر داخلہ محسن نقوی پر تنقید،رانا ثناء اللہ کے دور سے موازنہ

انتشار،بدامنی پی ٹی آئی کا ایجنڈہ،بشریٰ بی بی کی "ضد”پنجاب نہ نکلا

پیسے دے کر کہا گیا دھرنے میں جا کر آگ لگانی ،گرفتار شرپسندوں کے انکشاف

Shares: