الیکٹرانکس اشیاء کی لائف پہلے سے بہت کم کیوں؟ تحریر: عفیفہ راؤ
الیکٹرانکس اشیاء کی لائف پہلے سے بہت کم کیوں؟ تحریر: عفیفہ راؤ
ٹیکنالوجی کے اتنی ترقی کر لینے کے باوجود اس دور میں بننے والی کار، موبائل فون اور بلب کی کوالٹی پرانے وقتوں کی نسبت اتنی بری کیوں ہے؟ آج کل کی کاروں میں لگژری فیچرز تو بہت آ گئے ہیں موبائل فونزمیں بھی بہترین کمیرے لگائے جا رہے ہیں ان کے کلرز اور Shapeبھی بہت اسٹائلش ہو گئی ہیں اسی طرح بلب میں بھی بہت فینسی فینسی ڈیزائن مارکیٹ میں موجود ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ان الیکٹرانکس اشیاء کی لائف پہلے سے بہت کم کیوں ہوکر رہ گئی ہے؟ اور پراڈکٹ بنانے والی کمپنیاں کیسے دن دگنی اور رات چوگنی ترقیاں کررہی ہیں؟ امریکہ میں ایک Livermore Fire Station, number sixہے جس کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں دنیا کا واحد اور سب سے پرانا ایسا بلب سے جو پچھلے ایک سو اکیس سالوں سے مسلسل روشن ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہ کسی Light switchکے ساتھ Connectedنہیں ہے۔ البتہ اس کے ساتھ Back up battery and generatorضرور Attachہیں۔ لیکن یہاں اصل سوال یہ ہے کہ یہ اتنے سالوں سے کیسے کام کر رہا ہے یہ آج تک کبھی خراب یا فیوز کیوں نہیں ہوا؟حالانکہ یہ بلب ہاتھ سے دیسی طریقے سے بنایا گیا تھا کیونکہ اس وقت کمرشل بنیادوں پر بلب کی تیاری بالکل اپنے ابتدائی مراحل میں تھی۔ لیکن پھر بھی یہ کئی ملین گھنٹوں سے روشن ہے اور ابھی تک کام کررہا ہے جبکہ آج کے دور میں ہم کسی بلب یا لائٹ کے بارے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔
کچھ وقت پہلے مجھے کسی نے یہ سٹوری بتائی تھی کہ کئی سالوں پہلے ایک ایسا بلب ایجاد کیا گیا تھا جو ہمیشہ کام کر سکتا ہو اور کبھی خراب یا فیوز نہ ہو۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ بلب کبھی مارکیٹ تک نہیں پہنچ سکا کیونکہ اس کا کوئی بزنس ماڈل نہیں بن سکتا تھا۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ نہیں اس بلب کو تو بیچنا سب سے زیادہ آسان ہوتا کیونکہ اسے ہر ایک انسان یہ سوچ کرلازمی خریدتا کہ ایک بار اگر خرید لیا تو بار بار کے خرچے سے بچ جائیں گے۔ لیکن یہی اس بزنس ماڈل کا
Negative pointتھا ایک بار سیل کے بعد اس پراڈکٹ کا کوئی Repeat customerنہیں بننا تھا اس لئے اس کی سیل ایک حد سے آگے کبھی نہ بڑھ سکتی تھی۔اور یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے بلکہ حقیقت میں یہ تجربہ بھی ہو چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب
longlasting light bulbبنا کر بیچے جاتے تھے۔ لیکن جب کچھ عرصے بعد ان کی سالانہ سیل کا Analysis کیا گیا تو پتہ چلا کہ 1923میں OSRAMکے بلب کی سیل 63 millionتھی جو کہ اگلے ہی سال کم ہو کر 28 million ہو گئی تھی۔ یعنی یہ بلب ان کمپنیوں کے لئے ایک فائدہ مند پراڈکٹ کی جگہ نقصان دہ پرڈاکٹ ثابت ہوئی۔جس کے بعد 1924میںGeneva, Switzerlandمیں کرسمس کے موقع پر ان بلب بنانے والی کمپنیوں کی ایک خفیہ میٹنگ ہوئی۔ جس میں Philips
International general electricsTokyo electricOSRAM GermanyاورUKکی Associated electircکے ٹاپ ایگزیکٹیو شامل تھے۔ اس میٹنگ میں انہوں نے مل کر ایک Phoebus cartelبنایا۔Phoebus کا مطلب ہے The greek god of light.اور یہ عہد لیا گیا کہ یہ تمام کمپنیاں مل کر کام کریں گی۔ اور دنیا میں لائٹ بلب کی سپلائی کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی ایک دوسرے کی مدد کریں گی۔اسی میٹنگ میں یہ بھی ڈسکس کیا گیا کہ یہ لائٹ بلب جو لمبے عرصے تک کام کرتے ہیں اگر ان کی قیمت بڑھا بھی دی جائے تو کمپنیاں وہ منافع نہیں کما سکتیں جو کہ Repeat customersسے کمایا جا سکتا ہے۔ اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ انBulbsکےLife spanکو کم کیا جائے۔ تاکہ ایک بلب خراب ہوگا تو کسٹمر پر لازم ہو جائے گا کہ وہ اس کی جگہ نیا بلب خریدے۔ اس لئے وہ بلب جو کہ 2500 hoursسے زیادہ دیر تک روشن رہ سکتے تھے ان کی جگہ وہ بلب بنانے شروع کئے گئے جو صرف 1000 hoursتک کام کرتے اور اس کے بعد ناکارہ ہو جاتے۔
اب اگلا مرحلہ یہ تھا کہ یہ کمپنیاں ایک دوسرے پر کیسے نظر رکھیں کہ کوئی دوسرا ایسا بلب بنا کر مارکیٹ میں نہ بیچے جو کہ 1000 hoursسے زیادہ چل سکے کیونکہ یہ کسٹمرز کو تو یہی کہہ کر اپنی پراڈکٹ بیچتے ہیں کہ ہم آپ کو سب سے بہتر پراڈکٹ دے رہے ہیں۔ اس کے لئے یہ پریکٹس شروع کی گئی کہ ہر ایک کمپنی دوسرے کمپنی کو اپنی Sample productsبھیجتی جن کو ایک سٹینڈ پر لگا کر چیک کیا جاتا اور اگر کسی بھی کمپنی کا بلب ایک ہزار گھنٹے سے زیادہ کام کرتا تو اس کو جرمانہ کیا جاتا۔اگر کسی کمپنی کا بلب تین ہزار گھنٹوں سے زیادہ کام کرتا تو ایک ہزار بلب کی سیل پر کمپنی کو 200 swiss francجرمانہ کیا جاتا۔ جس کی وجہ سے وہ انجینئرز جو پہلے بلب کے Life span and durability
کو بڑھانے کے لئے کام کر رہے تھے انہی کو مجبور کیا گیا کہ وہ اس معیار کو گرانے کا کام کریں اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے جس کی وجہ سے یہ Cartelبننے کے چار سال بعد ہی ان بلب کمپنیوں کی سیل میں پچیس فیصد تک اضافہ ہو گیا۔ ایک طرف تو Repeat customers کی وجہ سے سیل میں اضافہ ہوا اور دوسری طرف معیار گرانے کی وجہ سے پراڈکٹ کی Costبھی کم ہو گئی لیکن ان کمپنیوں نے بلب کی قیمت وہی رہنے دی جو کہ پہلے تھی اس لئے کچھ ہی عرصے میں انہوں نے اچھا خاصا منافع کما لیا۔ اور یہ کوئی کہی سنی بات نہیں ہے بلکہ اس کے ثبوت موجود ہیں کہ کارٹل میں موجود یہ کمپنیاں مل کر اپنی پراڈکٹ کو کسٹمر کے لئے بہتر بنانے کی بجائے صرف اس بات کو یقینی بناتیں تھیں کہ وہ اپنی سیل اور پرافٹ کو کیسے بڑھا سکتی ہیں۔اور جس بلب کی مثال میں نے آپ کو شروع میں دی اس کے بھی اتنا طویل عرصے تک کام کرنے کی وجہ یہ ہی ہے کہ یہ بلب اس کارٹل کے وجود میں آنے سے پہلے کا بنا ہوا ہے اور اس کے علاوہ اس بلب کا Filamentبھی 4 or 5 wattتک Low power کا ہے۔ اسے فائر اسٹیشن میں نائٹ بلب کے طور پر استعمال کرنے کے لئے بنا کر لگایا گیا تھا جو کہ آج بھی چل رہا ہے۔
اب میں آپ کو بتاوں کہ ایک وقت آیا جب اس کارٹل کا پردہ فاش ہوا اور ان کمپنیوں کی آپس میں کچھ لڑائیاں ہوئیں کچھ نئی کمپنیاں مارکیٹ میں آئیں جنہوں نے اس کا حصہ بننے سے انکار کیا۔ جس کے بعد1955میں آ کر یہ کارٹل ختم ہو گیا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کارٹل اپنی پراڈکٹ کی سیل بڑھانے کے لئے جو طریقے استعمال کرتا تھا وہ آج تک چل رہے ہیں۔اس پر وہ مثال فٹ آتی ہے کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔۔۔یعنی کارٹل ختم ہونے کے بعد بھی اب کمپنیاں خود سے ہی صرف ایسی پراڈکٹ بناتی ہیں جو کچھ عرصے بعد خود ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ اسے Planned Obsolescenceکہا جاتا ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو 2003میں Casey neistatکی ایک ویڈیو بہت زیادہ وائرل ہوئی تھی جس کا ٹائٹل تھا iPod’s Dirty secretجس میں اس نے بتایا تھا کہ کیسے اس کا اٹھارہ ماہ پہلے خریدا گیا Ipodجب کام کرنا چھوڑ گیا اور اس نے ایپل کمپنی کو فون کیا تو آگے سے یہ جواب ملا کہ کیونکہ آپ کے ipodکو ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے تو اب اگر آپ اسے ٹھیک کروانا چاہتے ہیں تو آپ کو اسے ڈاک کے ذریعے ہمیں بھیجنا ہوگا جس کا خرچہ تقریبا دو سو پچپن ڈالر سے زیادہ بنتا ہے جبکہ آپ اس سے کم قیمت میں نیا Ipodخرید سکتے ہیں۔ اس ویڈیو کو کئی ملین لوگوں نے دیکھا اور ایپل کمپنی نے Law suitسے بچنے کے لئےOut of the court settlementبھی کی لیکن ان کی PlannedObsolescence
نہ رکی۔ 2017میں جب کمپنی کی طرف سے ios updateکیا گیا تو وہ لوگ جن کے پاس پرانے آئی فون تھے ان کی رفارمنس سپیڈ بہت Slowہو گئی لوگوں کو ایپس ڈاون لوڈ کرنے میں مشکلات آنے لگیں اور یہاں تک کہ فونز خود سے شٹ ڈاون ہونے لگے۔ ایپل نے اس کو بیٹری کا ایشو بتایا لیکن آپ سب جانتے ہیں کہ ایپل میں بیٹری Replaceنہیں ہو سکتی جس کی وجہ سے وہ فونز ناکارہ ہو گئے۔ ایپل اب تک کئی ملین ڈالرز Law suits settlementsمیں لوگوں کو ادا کر چکا ہے لیکن اس کی پراڈکٹ میں کوئی چینج نہیں آیا۔ کیونکہ Planned Obsolescenceکے فارمولے کی وجہ سے کمپنی جو منافع کما رہی ہے وہ اس جرمانے سے کہیں زیادہ ہے۔لیکن آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ Planned Obsolescenceاتنی بھی بری چیز نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ فائدے بھی ہیں۔1930کی دہائی میں جب امریکہ میں Great depressionآیا اور ¼آبادی بے روزگار ہو گئی تھی۔ اس وقت Real estate broker Bernard Londonنے Planned Obsolescenceکے تحت ایک آئیڈیا دیا تاکہ لوگوں کو روزگار دیا جا سکے اور امریکہ کو ڈپریشن سے نکالا جا سکے۔اس نے امریکی گورنمنٹ کو خط لکھا کہ ایسے کپڑے جوتے اور مشینیں بنائی جائیں جو ایک محدود وقت تک استعمال ہوں اور اس کے بعد وہ ناکارہ ہو جائیں تاکہ لوگ نئی چیزیں خریدیں اور کمپنیاں چلتی رہیں اور لوگوں کو بھی روزگار کو مسئلہ نہ ہو۔
اسی موضوع پر ایک فلم بھی بنی تھیI kid you not جس کو آسکر ایوارڈ میں Best screen playکے لئے بھی نامزد کیا گیا تھا۔جس میں ایک سائنسدان ایک ایسا سفید کپڑا بناتا ہے جو کبھی گندا نہیں ہو سکتا اس پر سلوٹیں نہیں پڑ سکتیں۔ اور وہ سالوں تک استعمال کیاجانے کے باوجود پرانا نہیں ہو سکتا۔لیکن وہ کپڑا کمپنی مالکان کے لئے اس وجہ سے پریشانی کا باعث تھا کہ اس کے Repeat customers نہیں ہوں گے اور ورکرز اس لئے پریشان تھے کہ اس سے وہ ورکر جو واشنگ کرکے، کپڑوں کو سلائی اور پریس کرکے اپنی آمدن کماتے ہیں ان کا روزگار ختم ہو جائے گا۔ اس طرح فیکٹری مالکان اور ورکر دونوں ہی اس سائنسدان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ تاکہ اس سائنسدان اور اس کی ایجاد کو ختم کیا جا سکے۔لیکن جو بھی ہو Planned Obsolescenceپھر بھی Consumersکے لئے پریشانی کی ایک بڑی وجہ تھی جس کی وجہ سے یورپی یونین اور امریکہ کی پچیس ریاستوں کو یہ قانون بنانا پڑا کہ لوگ اپنی مشینوں کو مرمت کروا سکتے ہیں تاکہ ان کو زیادہ سے زیادہ وقت تک استعمال کیا جا سکے۔ اس قانون کے تحت کمپنیوں پر یہ لازم کیا گیا کہ وہ اپنی پراڈکٹ اس طرح بنائیں کہ ان کو مرمت کرنے میں مشکل نہ ہو۔ اور ان کے Spare partsبھی مارکیٹ میں دستیاب ہوں۔لیکن اس قانون سے بھی کام بن نہیں سکا Planned Obsolescenceکے لئےکمپنیوں نے کسٹمر کی Psychology سے کھیلنا شروع کیا۔
لائٹ بلب کی طرح ایک وقت تھا کہ فورڈ کمپنی بہت مضبوط کاریں بناتیں تھیں جو سالہا سال چلتیں اور ان کو بدلنے کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوتی۔ ایک وقت آیا جب امریکہ میں ہر ایک کے پاس یہ کاریں تھیں جس کی وجہ سے کمپنی کی سیل بہت کم ہو گئی تو انھوں نے Planned Obsolescenceکا یہ فارمولا لگایا کہ ان کاروں کو مختلف رنگوں میں بنانا شروع کیا اور ہر سال ایک نئے رنگ کی کار مارکیٹ میں لانچ کی جاتی اس طرح جس کسٹمر کو وہ رنگ پسند آتا وہ اسے خریدنا شروع کر دیتے۔ رنگوں کے بعد ڈیزائن میں تبدیلیاں شروع کی گئیں۔یہ وہی کام ہے جو اس وقت موبائل فونز والی کمپنیاں کر رہی ہیں کہ ہر سال صرف کلر اور Shapeمیں تھوڑی بہت تبدیلی کرکے ایک نیا ماڈل پیش کر دیا جاتا ہے اور وہ لوگ جو کہ فیشن اور برانڈ Consciousہیں اور جن کے لئے افورڈ کرنا بھی مشکل نہیں ہے تو وہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود نیا ماڈل خریدتے ہیں اور کمپنی کی سیل بڑھاتے ہیں۔ہر کچھ عرصے بعدTrendsکوRecycleکیا جاتا ہے۔ انھیں نئے فیشن کا نام دے کر لوگوں کو Attractکیا جاتا ہے اور پیسہ بنایا جاتا ہے اور یہ ہے وہ بزنس ماڈل جس کو یہ کمپنیاں Adoptکرکے اپنا قد بڑے سے بڑا کرتی جاتی ہیں۔