نو پارکنگ بورڈ کے بغیر لفٹر کے چالان
تحریر: سرمد خان چنگوانی
📧 Sarmadchangwani1@gmail.com
ڈیرہ غازی خان شہر جنوبی پنجاب کا ایک اہم اور تیزی سے ترقی کرتا ہوا علاقہ ہے۔ یہاں کی سڑکیں، بازار، سرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے روز بروز مصروف ہوتے جا رہے ہیں۔ مگر اس بڑھتی ہوئی شہری سرگرمی کے ساتھ ساتھ شہریوں کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں سب سے نمایاں مسئلہ ٹریفک پولیس کی جانب سے گاڑیوں کے لفٹر کے ذریعے چالان کا ہے، خاص طور پر وہاں جہاں "نو پارکنگ” کا کوئی واضح بورڈ موجود نہیں ہوتا۔ شہریوں کے لیے یہ صورتحال نہ صرف پریشانی کا باعث بنتی ہے بلکہ انصاف اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں پر بھی سوال اٹھاتی ہے۔
شہر کے مختلف مقامات پر دیکھا گیا ہے کہ ٹریفک پولیس کی لفٹر گاڑیاں اچانک آتی ہیں اور بغیر کسی پیشگی اطلاع یا وارننگ کے کھڑی گاڑیوں کو اٹھا کر تھانے یا مخصوص پارکنگ یارڈ میں منتقل کر دیتی ہیں۔ بعد ازاں گاڑی کے مالک کو جرمانے کے ساتھ ساتھ لفٹنگ چارجز بھی ادا کرنے پڑتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی جگہ پر "نو پارکنگ” کا بورڈ یا کوئی واضح نشانی نصب ہی نہیں کی گئی تو عام شہری کو کیسے معلوم ہوگا کہ یہ جگہ ممنوعہ ہے؟ کیا شہریوں کو سزا دینے سے پہلے ان کو آگاہ کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری نہیں بنتی؟
قانون کے مطابق موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 اور ٹریفک پولیس کے جاری کردہ قواعد میں واضح طور پر درج ہے کہ پارکنگ کی ممانعت صرف اسی جگہ قابلِ اطلاق ہوگی جہاں اس کی باقاعدہ نشاندہی کی گئی ہو۔ اگر کسی سڑک یا علاقے میں "نو پارکنگ”کا سائن بورڈ یا نشان نصب نہیں، تو شہری کو یہ علم ہونا ناممکن ہے کہ وہاں گاڑی کھڑی کرنا جرم سمجھا جائے گا۔ قانون کی روح یہی ہے کہ پہلے آگاہی دی جائے، پھر کارروائی کی جائے۔ مگر بدقسمتی سے ڈیرہ غازی خان میں اس اصول پر عملدرآمد کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔
کئی شہریوں نے شکایت کی ہے کہ ان کی گاڑیاں بازاروں یا دفاتر کے قریب اس وقت لفٹ کر لی گئیں جب وہ چند منٹ کے لیے کوئی کام نمٹانے گئے تھے۔ جب وہ واپس آئے تو نہ گاڑی موجود تھی، نہ کوئی نوٹس، اور بعد میں پتا چلا کہ چالان بھی ہو چکا ہے۔ بعض اوقات تو وہ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں برسوں سے لوگ اپنی گاڑیاں پارک کرتے آ رہے ہیں۔ اب اچانک اگر وہاں لفٹر کارروائی شروع کر دے تو عوام کو بغیر اطلاع کے سزا دینا انصاف کے منافی ہے۔
یہ بھی قابلِ غور ہے کہ”نو پارکنگ” کے بورڈ صرف لگانا کافی نہیں ہوتا بلکہ انہیں نمایاں اور واضح مقام پر نصب کیا جانا ضروری ہے۔ اکثر جگہوں پر بورڈ ایسے لگائے جاتے ہیں جو درختوں، دکانوں کے سائن بورڈز یا بجلی کے کھمبوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں، جس کے باعث وہ عام نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ اس طرح شہری نادانستہ طور پر قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔
ٹریفک پولیس کا مؤقف یہ ہوتا ہے کہ پارکنگ سے سڑکوں پر رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، ٹریفک جام لگتا ہے اور ہنگامی سروسز متاثر ہوتی ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک درست مؤقف ہے، مگر اس کے لیے شہریوں کو شریکِ سفر بنایا جائے، ان کے خلاف کارروائی نہیں بلکہ انہیں قائل کیا جائے۔ اگر شہر میں باقاعدہ پارکنگ پلان تیار کیا جائے، پارکنگ ایریاز مخصوص کیے جائیں، اور "نو پارکنگ” کی واضح نشاندہی کی جائے تو عوام خود بخود تعاون کریں گے۔
ڈیرہ غازی خان میں ضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامیہ پہلے شہری سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ پارکنگ کے لیے متبادل جگہیں فراہم کی جائیں، سڑکوں کے کنارے واضح نشانات لگائے جائیں، اور ٹریفک پولیس کو پابند کیا جائے کہ وہ صرف اُن گاڑیوں کے خلاف کارروائی کرے جو واقعی ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ بن رہی ہوں۔ عوام پر جرمانے عائد کرنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ان کو قانون کے بارے میں تعلیم دی جائے۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ٹریفک قوانین عوام کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں، عوام کو تکلیف پہنچانے کے لیے نہیں۔ اگر قانون پر عملدرآمد شفاف، غیرجانبدار اور واضح طریقے سے کیا جائے تو عوام اس کا احترام کریں گے۔ لیکن اگر کسی شہری کو بغیر اطلاع کے سزا دی جائے تو اس سے نہ صرف عوامی اعتماد مجروح ہوتا ہے بلکہ اداروں کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔
ڈیرہ غازی خان کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ٹریفک نظام میں شفافیت لانے کے لیے اقدامات کرے۔ شہریوں کے لیے آگاہی مہم چلائی جائے، بورڈز کو واضح اور یکساں معیار کے مطابق لگایا جائے، اور جہاں بورڈ موجود نہیں وہاں لفٹر کارروائی فوری طور پر روک دی جائے۔ عوام کے ساتھ خوش اخلاقی، شفافیت اور انصاف ہی وہ راستہ ہے جس سے ٹریفک کا نظام بہتر ہو سکتا ہے اور شہری اداروں پر اعتماد بحال رہتا ہے۔











