پاکستان شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار ، میزبان اور پروڈیوسر فہد مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ڈرامے کا مقصد سمجھنے کے لئے تھوڑا صبر سے کام لینا چاہیئے ناظرین کو فیصلہ سنانا ہے تو کہانی ختم ہونے کے بعد سنائیں درمیان میں نہیں-
باغی ٹی وی : برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کو دیئے گئے انٹر ویو میں اداکار فہد مصطفیٰ نے ڈرامہ انڈسٹری کے بارے میں کُھل کر بات کی اور کہا کہ دوسرے اداکاروں کی طرح ان کے اندر اتنی صلاحیت نہیں کہ فلموں، اشتہارات اور پروڈکشنز کے بعد ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کے لیے وقت نکال سکیں ایک ڈرامے میں اداکاری کرنے لگا تو باقی سب کام متاثر ہوں گے ایسا نہیں کہ ٹی وی کرنے کا دل نہیں ہے، شاید وقت نہیں ہے، جب وقت ہو گا تو یہ بھی کر لیں گے۔
فہد مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ انہیں’بلا‘، ’چیخ‘، ‘نند‘ اور ’جلن‘ جیسے ڈرامے بنانے پر فخر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہر ڈرامے سے لوگوں کو سیکھا تو نہیں سکتے، لیکن جتنا کر سکتے ہیں، اس کی کوشش کرتے ہیں۔‘
اداکار کا کہنا تھا کہ ٹی وی اب انٹرٹینمنٹ کے ساتھ ساتھ بزنس بھی ہے اور ہم لوگوں کو ہر وقت ترغیب نہیں دے سکتے کہ ایسا کرو اور ایسا نہیں، اسی لیے شاید ہم کہانی کے ذریعے انھیں صحیح اور غلط کا فرق سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ٹی وی پر چلنے والے مقبول ڈرامہ ’’نند‘ کے نام پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس ڈرامے کا نام کچھ اور ہوتا تو شاید وہ بات نہ ہوتی، ہم ذرا سیدھے آجاتے ہیں اس لیے لوگوں کو پتہ چلتا ہے۔
ارطغرل ہمارے لئے خطرہ نہیں بلکہ موقع ہے ، سینیٹر فیصل جاوید اینگن کی حمایت میں بول…
میزبان و اداکار کا کہنا تھا کہ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، لوگ پاکٹ فلمز دیکھ رہے ہیں، اس لیے انھیں 26 سے 30 اقساط تک جڑے رکھنے کے لیے ڈائریکٹ آنا پڑتا ہے۔ آپ کو ڈرامہ اچھا نہیں لگے گا تو چینل بدل دیں گے،اسی لیے ان ڈراموں کے نام ایسے رکھے جاتے ہیں جس سے لوگوں میں تجسس پیدا ہو۔
فہد مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ لوگوں کو ڈرامے کا مقصد سمجھنے کے لیے تھوڑا صبر سے بھی کام لینا چاہیے۔ ناظرین کو فیصلہ سنانا ہے تو کہانی ختم ہونے کے بعد سنائیں، درمیان میں نہیں۔
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کے بارے میں بات کرتے ہوئے فہد کا کہنا تھا کہ اچھا لگے یا برا، لوگ ڈرامے دیکھ تو رہے ہیں اور یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر بھی دیکھا جا رہا ہے یہ ڈرامے نہ صرف ٹرینڈ پہ چلے جاتے ہیں، بلکہ لوگ انھیں انجوائے بھی کرتے ہیں۔
اداکار کا کہنا تھا کہ ٹی وی آج سے نہیں، ہمیشہ سے ہی ایسا تھا، بولڈ اینڈ دی بیوٹی فل کے زمانے سے، لیکن اب چونکہ لوگوں کے پاس اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے مخلتف پلیٹ فارم موجود ہیں تو سب دیکھتے بھی ہیں، اس پر منفی یا مثبت انداز میں بات بھی کرتے ہیں۔
فہد مصطفی نے کہا کہ ہمارے ڈرامے ’میری گڑیا‘، ’مقابل‘، ’رنگ لاگا‘، ’مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے‘، ایسے ڈرامے تھے جنھوں نے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کیا۔ ’نند‘ اور ’جلن‘ پر شور اس لیے مچ رہا ہے کیونکہ ابھی آئے ہیں اور سب انھیں دیکھ بھی رہے ہیں مجھے ایک پروڈیوسر ہونے کے ناطے دونوں ڈرامے پسند بھی ہیں اور میں ان کو اون کرتا ہوں، خوشی کی بات یہ ہے کہ امیر ہو یا غریب، ’نند‘ پر سب بات کر رہے ہیں۔
عمران عباس اور صبور علی نئے آنے والے پروجیکٹ میں ایک ساتھ نظر آئیں گے؟
انہوں نے کہا ’میں ایک کہانی دکھاتا ہوں، اچھی لگی تو لوگ دیکھیں گے،نہیں لگی تو نہیں دیکھیں گے، جس ڈرامے کی بات نہیں ہوتی وہ لوگ نہیں دیکھ رہے ہوتے لوگ ‘نند’ اور ‘جلن ‘دونوں کی بات کر رہے ہیں۔
فہد کے مطابق ہمارے ڈرامے لوگوں سے وہ سوالات کرتے ہیں جو شاید وہ سننا نہیں چاہتے، اور آپ ہمیشہ اس بات پر جھلملاتے ہیں یا چلاتے ہیں جس میں آپ خود غلط ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ڈراموں پر پابندی لگتی بھی ہے اور ہٹتی بھی۔ پیمرا حکام سے بھی ہماری بات ہوتی ہے، وہ اچھے لوگ ہیں، انہیں مصروف رکھنا ہمارا کام ہے۔
اداکار کا کہنا تھا کہ پہلے تو کچھ بھی کہیں بھی چل جاتا تھا اور عشق ممنوع اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ مرکزی خیال کہیں سے بھی آ سکتا ہے۔ میرے لحاظ سے اس ڈرامے میں کوئی غیر اخلاقی بات نہیں ہوئی جس کو برا لگا اس کا اپنا دماغی مسئلہ ہے۔