یوم پیدائش،محمد تقی بہار ،ایرانی شاعر

0
93

پیدائش:09 دسمبر 1886ء
مشہد
وفات:21 اپریل 1951ء
تہران
وجۂ وفات:سل
طرز وفات:طبعی موت
شہریت:ایران
عارضہ:سل
زبان:فارسی

محمد تقی بہار ایرانی شاعر تھے۔ بہار شاعر ہونے کے علاوہ محقق، ادیب، معلم، مدیر اخبار اور سیاسی شخص تھے۔ مشہد میں پیدا ہوئے۔ والد کی وفات کے بعد ادیب نیشاپوری سے اصلاح لی۔ آصف الدولہ غلام رضا خاں کے توسط سے مظفر الدین شاہ نے ملک الشعراء کا خطاب عطا کیا۔ اور سالانہ وظیفہ بھی متعین ہوا۔ 1906ء میں ایران میں مشروطیت کا آغاز ہوا۔ تو انقلابیوں کے گروہ میں شامل ہو گئے۔ اور آزادی پر مقالات اور نظمیں لکھیں۔ نوبہار اور دانشکدہ جاری کیے۔ پانچ بار مجلس شوری ملی کے نمائندے منتخب ہوئے۔ رضا شاہ پہلوی کے عہد میں سیاست سے کنارہ کش ہوکر تصنیف و تالیف میں مصروف ہو گئے۔ دارالمعلمین عالی اور تہران یونیورسٹی میں پروفیسر بھی رہے۔ کچھ عرصہ وزارت تعلیمات کا قلمدان بھی سنبھا لا۔ بہت سی علمی و ادبی اور تحقیقی کتابوں کے مصنف تھے۔
سوانح
۔۔۔۔۔
مرزا محمد تقی نام، بہار تخلص، ملک الشعرا محمد کاظم صبوری کے صاحبزادے تھے۔ مشہد میں 9 0دسمبر 1886ء کو پیدا ہوئے اور عربی و فارسی کی تعلیم مشہد ہی میں حاصل کی۔ سترہ سال کے تھے کہ یتیم ہو گئے۔ تحصیل علم کے بعد غلام رضا خاں آصف الدولہ گورنر خراساں کے پاس پہنچے جنہوں نے مظفر الدین شاہ قاجار سے ملک الشعرا کا خطاب دلایا اور سالانہ وظیفہ مقرر کرا دیا۔
سنہ 1906ء میں انقلاب ایران کے موقع پر ایک پرخلوص اور پرجوش انقلابی رکن رہے اور اپنی انقلابی نظموں سے مقبولیت حاصل کی۔ 1911ء میں "نوبہار” نامی روزنامہ جاری کیا۔ انقلابی ادب کی وجہ سے دوبار جلاوطنی ملی۔ حکومت نے اخبار بند کر دیا۔ حکومت کے دباؤ کیوجہ سے اکثر انقلابی اراکین تہران سے نکل گئے۔ بہار ان میں شریک تھے۔ جب واپس ہوئے تو دوبارہ اخبار جاری کیا۔ مجلس شعرا ملی کے رکن رہے اور پھر تصنیف و تالیف کو مشغلہ بنا لیا۔ اخباروں کے لیے کئی تحقیقی مقالات لکھے۔ ایک ناول "نیرنگ سیاہ پاکیزان سفید” کے نام سے لکھا۔
تاریخ سیستان، مجمل التوائخ و القصص اور سبک شناسی ان کی اہم تالیفات میں شمار ہوتی ہیں۔ عبارت میں سلاست، جوش اور روانی ہے۔ قصیدہ کی طرز کے استاد تسلیم کیے جاتے ہیں اور ادبی تاریخ پر حاوی ہیں۔ مرض سل میں مبتلا ہو کر تہران میں 22 اپریل 1951ء کو انتقال کیا۔ مقبرہ ظہیر الدولہ، شمران میں دفن کیے گئے۔
تخلیقات
۔۔۔۔۔
منظومۂ چہار خطابہ، 1926ء
اندرزہای آذرباد ماراسپندان
(ترجمۂ منظوم از پہلوی)، 1933ء
یادگار زریران
(ترجمۂ منظوم از پہلوی)، 1933ء
زندگانی مانی، 1934ء
گلشن صبا، فتح علی خان صبا (تصحیح)، 1934ء
احوال فردوسی، 1934ء
تاریخ سیستان (تصحیح)، 1935ء
رسالۂ نفس ارسطو
ترجمۂ باباافضل کاشانی (تصحیح)، 1937ء
مجمل‌التواریخ والقصص
(تصحیح)، 1939ء
منتخب جوامع‌الحکایات
سدیدالدین عوفی (تصحیح)، 1945ء
سبک شناسی، (تین جلد)
۔۔۔ 1942ء-1947ء
تاریخ مختصر احزاب سیاسی
(دو جلد)، 1942-1983ء
دستور زبان فارسی پنج استاد
(بہ ہمراہی قریب، فروزانفر
رشید یاسمی، ہمایی)، 1950ء
شعر در ایران، 1954ء
تاریخ تطّور در شعر فارسی، 1955ء
دیوان اشعار، تہران، 1956ء
تاریخ بلعمی، ابوعلی محمدبن محمد بلعمی
(تصحیح) (بہ کوشش محمد پروین گنابادی)، 1962ء
فردوسی نامہ بہار
(بہ کوشش محمد گلبن)، 1966ء
رسالہ در احوال محمدبن جریر طبری
بہار و ادب فارسی

Leave a reply