مافیا کی مفت بجلی، عوام پر بوجھ، ذمہ دار کون؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
پاکستان میں توانائی بحران ایک دیرینہ مسئلہ چل رہا ہے لیکن گذشتہ روز میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والی خبر کے انکشافات نے اس بحران کی جڑوں کو مزید عیاں کر دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی دستاویزات کے مطابق ہر سال پبلک اور کارپوریٹ سیکٹر کے دو لاکھ ملازمین کو 44 کروڑ 15 لاکھ یونٹس مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ حاضر سروس ملازمین کے لیے 30 کروڑ 82 لاکھ یونٹس اور ریٹائرڈ ملازمین کے لیے 13 کروڑ 32 لاکھ یونٹس مختص کیے گئے ہیں۔
یہ مراعات ایک ایسے وقت میں دی جا رہی ہیں جب ملک کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور عوام مہنگے بجلی بلوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔واپڈا، جینکو، ڈیسکوز اور این ٹی ڈی سی جیسے ادارے اپنے لاکھوں ملازمین کو یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ ان دستاویزات کے مطابق ڈیسکوز کے 1 لاکھ 49 ہزار ملازمین، جینکو کے 12 ہزار ملازمین، واپڈا کے 12 ہزار 700 ملازمین، پی آئی ٹی سی کے 159 ملازمین اور این ٹی ڈی سی کے 20 ہزار ملازمین شامل ہیں۔ یہ مراعات ریٹائرڈ ملازمین کو بھی فراہم کی جا رہی ہیں، جس سے قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ایک معاشی بحران سے دوچار ملک ایسے اخراجات کا متحمل ہو سکتا ہے؟واپڈا کے ملازمین کو ان کی خدمات کے بدلے میں مختلف مراعات حاصل ہوتی ہیں جن میں مفت بجلی بھی شامل ہے۔ تاہم اس مراعت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے واپڈا کے کرپٹ ملازمین بجلی کی چوری میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق واپڈا کے ہزاروں ملازمین کو مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے، یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس سے قومی خزانے کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ واپڈا کے ریٹائرڈ ملازمین کو بھی مفت بجلی کی سہولت حاصل ہے۔
پاکستان میں بجلی چوری ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف عام بلکہ منظم سطح پر کیا جا رہا ہے۔ ہر سال کروڑوں روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے جو اب اربوں روپے تک جا پہنچی ہے۔ بجلی چوری کے طریقے جیسے غیر قانونی کنکشن، میٹر میں گڑبڑ اور ٹرانسفارمرز سے بجلی لینا عام سی بات ہوچکی ہے ،اس ساری چوری اور کرپشن کی کڑیاں واپڈا ملازمین سے جاملتی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ بجلی چوری میں صرف عام افراد ہی نہیں بلکہ بااثر سیاسی شخصیات، صنعتکاراور بڑے تاجر بھی ملوث ہیں۔ ان افراد کا سیاسی اثر و رسوخ اور سرکاری اہلکاروں سے گٹھ جوڑ انہیں قانون کے شکنجے سے بچا لیتا ہے۔
حکومت بجلی چوری کے مسئلے کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اور نیپرا اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے تاکہ بجلی کے گردشی قرضے ادا کیے جا سکیں جو اصل میں چوری شدہ یا مفت فراہم کی گئی بجلی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔
یہ مسئلہ عوام کے لیے مزید مشکلات کا سبب بن رہا ہے کہ کم آمدنی والے افراد پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پسے جاچکے ہیں اور بجلی کے بڑھے ہوئے بلوں نے ان کی زندگی کو مزید اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے۔ کرپشن میں ڈوبی واپڈا کی افسر شاہی نے سردیوں میں بجلی کے کم استعمال کا فائدہ بھی عوام کو نہ اٹھانے دیا۔ جن شہریوں کے میٹرز پر بجلی کا معمولی استعمال ہوا ، انہیں بھی بجلی چوری کا ڈیٹکشن بل بھیج کر ایک نئی پریشانی میں مبتلا کر دیا گیا۔
دوسری طرف رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیاکہ سرکاری دفاتر میں ایئر کنڈیشنرز اور دیگر آلات کا غیر ضروری استعمال بجلی کے ضیاع کا ایک بڑا سبب ہے۔عوام حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ بجلی چوری کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں اور مفت بجلی کی فراہمی ختم کی جائے۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو روکا جائے، شفافیت اور احتساب کو یقینی بنایا جائے اور سرکاری اداروں کو مفت بجلی کی غیر ضروری مراعات ختم کی جائیں۔
بجلی چوری کے خلاف سخت قوانین نافذ کیے جائیں، بجلی چوری میں ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں اور قانون کی گرفت مضبوط بنائی جائے۔ واپڈا اور دیگر اداروں میں شفافیت لانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل میٹرنگ کا نظام متعارف کرایا جائے اور ان سے بھی بل وصول کئے جائیں۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں توانائی کا بحران کرپشن اور ناقص انتظام کا شاخسانہ ہے،مافیا کی مفت بجلی اور عوام پر اضافی بوجھ ایک ایسے نظام کی عکاسی کرتا ہے جو کرپشن اور نااہلی کا شکار ہے۔ حکومت کو فوری طور پر مفت بجلی کی مراعات ختم کر کے قومی وسائل کو بچانے کے لیے مئوثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ بجلی چوری پر سخت قوانین نافذ کیے جائیں اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔
عوام پر بوجھ ڈالنے کے بجائے توانائی کی منصفانہ تقسیم اور پائیدار نظام قائم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ مافیا کے اثر و رسوخ کو ختم کر کے عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کیا جائے۔









