ابھی ایک دن گزارا نہیں تھا کہ مغرب کی جانب سے چین پر دوسرا بڑا حملہ کر دیا گیا ہے ۔ G7 بارے تو میں آپکو گزشتہ ویڈیو میں بتا چکا ہوں ۔ اب نیٹو کے سربراہ اجلاس کے دوران بھی چین کو مستقل سکیورٹی چیلنج قراردیا گیا ہے ۔ اب نیٹو نے پہلی بار چین کے فوجی مقاصد کے بھرپور مقابلے کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔

۔ اس وقت لگ ایسا رہا ہے کہ امریکہ نے چین کے خلاف میڈیا وار تو آغاز کر دیا ہے کیونکہ جیسے وہ ہر فورم پر اپنے ہم خیال ممالک کے ساتھ چین کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے ۔ جیسے ہر فورم پر امریکہ یہ نہیں بھولتا کہ وباء ، انسانی حقوق ، سنکیانگ، ہانگ کانگ اور تائیوان کا ذکر لازمی ہو ۔ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے ۔ تو میرے حساب سے اس وقت چین کو میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں پر ایک جارحیت کا سامنا ہے ۔ اب وہ اس کو counter کیسے کرتا ہے یہ دیکھنا ہے ۔ کیونکہ یاد رکھیں مغربی ذرائع ابلاغ اس وقت بڑے طریقے سے ایک مقصد کے تحت استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اور چین کو ایک نیا دشمن ایک نیا خطرہ بنا کر دنیا کو پیش کیا جا رہا ہے تاکہ دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی عوامی رائے کو اس حوالے سے mouldکیا جاسکے ۔ ایسا ہی یہ ممالک سب سے پہلے روس کے ساتھ پھر افغانستان ، لیبیا ، شام اور عراق کے معاملے میں کرچکے ہیں ۔

۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا یہ کہنا بھی بڑا معنی خیز ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی دوبارہ متحرک ہوچکے ہیں۔ جمہوریتیں اور آمریتیں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔۔ جمہوریت اور آمریت والا تو ایک منجن ہی ہے حقیقت میں یہ ممالک کسی بھی اور ملک کو اتنا مضبوط اور مستحکم ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے کہ وہ ان کے اثر و رسوخ سے باہر نکل جائے۔ چین اور روس اس وقت بالعموم دنیا کے تمام ملکوں اور بالخصوص جنوبی ایشیا کے ممالک سے اپنے تعلقات کو بہتر بنارہے ہیں جس سے ان کے بین الاقوامی اثر و رسوخ میں اضافہ ہورہا ہے۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو چین اور روس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ کسی بھی طور قبول نہیں۔

۔ اس تمام صورتحال میں دیکھا جائے تو پاکستان کے لیے بھی مسائل میں اضافے روز بروز بڑھتے دیکھائی دے رہے ہیں کیونکہ جس طرح چین کو لے کر دنیا میں polarizationبڑھتی جارہی ہے ۔ اور جو پاکستان کے چین اور روس کے ساتھ تعلقات مزید مستحکم ہورہے ہیں۔ اگر امریکا اور اس کے اتحادی چین اور روس کے خلاف گھیرا تنگ کرتے ہیں تو پاکستان بھی ان کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ کیونکہ ہم چین کے اہم اتحادی ہیں تو اس حوالے سے پاکستان پر پریشر کے ساتھ ساتھ سازشوں میں بھی اضافے کا اندیشہ ہے ۔ خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ۔ کیونکہ سی پیک one belt one roadمنصوبے کے ماتھے کا جھومر ہے ۔ جس تیزی سے گزشتہ کئی ماہ سے امریکی اور مغربی ممالک کے highest dignitaries پاکستان کے دورے کرر ہے ہیں اس میں افغانستان کے ساتھ ساتھ چین بھی یقینی طور پر زیر بحث آیا ہوگا۔

۔ دیکھا جائے تو معاشی اور دفاعی دونوں جانب سے پاکستان پھنسا ہوا ہے ۔ ایک جانب بھارتی جارحیت تو دوسری جانب افغانستان کی روز بروز بگڑتی صورتحال ہمارے سامنے پھن پھیلائے کھڑی ہے ۔ سونے ہر سہاگہ معاشی مبجوریوں کی وجہ سے ہم آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک ، یورپی یونین اور امریکہ کے محتاج بھی ہیں ۔ آئی ایم ایف کی قسط نہ ملی تو ملک نے چلنا نہیں اور یورپی یونین اور امریکہ کے ساتھ ہماری تجارت رکی تو تب بھی ہم کو بڑا دھچکہ لگ سکتا ہے تو آنے والے دنوں میں خوفناک منظر دیکھائی دے رہا ہے ۔ پاکستان کو ایک بار پھر سخت فیصلے کرنے پڑیں گے ۔ اس میں بھی کوئی بحث نہیں ہے کہ چین ہمارا ہمسایہ اور دوست ملک ہے اور ہمارے سرد و گرم کاساتھی بھی ہے ۔ ہر عالمی فورم اور معاملے میں چین ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا ہے ۔ پاکستان کی جغرافیائی صورت حال کو دیکھا جائے تو بھارت جیسے مکار دشمن کے ہوتے ہوئے چین کی ہمسائیگی نعمت سے کم نہیں۔ چین جب تنہا تھا تو اس وقت پاکستان نے اس کا کھل کے ساتھ دیا تھا ۔

۔ ساتھ ہی سی پیک ایسا منصوبہ ہے جس پر تقریباً قومی اتفاق رائے ہے اس کے لئے چین نے جو پیکج دیا ہے وہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ اور یہ آج کا نہیں بلکہ گزشتہ کئی حکومتوں کے دور میں تسلسل سے چلتا آرہا ہے ۔ اب آنے والے دنوں میں خصوصی طور پر امریکہ کی جانب سے پریشر بڑھتا دیکھائی دے رہا ہے کہ with us or against us
تو پاکستان کے لیے صورتحال کافی tricky ہوچکی ہے ۔ یقینی طور پر پاکستان اس وقت کسی کی بھی مخالفت مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ اگر تفصیل میں جائیں تو چین کے بارے میں بات کرتے ہوئے نیٹو رہنماؤں کا کہنا تھا کہ چین اپنی جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے، اپنی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے خفیہ طور پر کام کر رہا ہے اور روس کے ساتھ عسکری تعاون کر رہا ہے۔ بیجنگ کے تیزی کے ساتھ جوہری میزائل بنانے پر بھی تشویش کا اظہار کیاگیا ۔ ۔ نیٹو کے سربراہ jens stoltenbergجینس سٹولٹنبرگ نے توتنیہہ کی ہے کہ چین نیٹو کی عسکری اور تیکنیکی صلاحیتوں کے ’قریب‘ پہنچ رہا ہے۔ ۔ جبکہ امریکی صدر جوبائیڈن نے نیٹو اتحادیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ چین اور روس کی جانب سے لاحق نئے چیلنجوں کے مطابق خود کو ڈھالیں۔ روس اور چین ہماری توقعات کے مطابق نہیں چل رہے ۔ جوبائیڈن نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ چین کو کورونا وائرس کی ابتدا کے بارے میں تحقیق کرنے والوں کو بھرپور رسائی دینی چاہیے۔ کیونکہ شفافیت کے بغیر ایک اور وبا پھیل سکتی ہے۔

۔ جرمن چانسلر anglina merkhal نے چین کو حریف قرار دے دیا۔ تو فرانسیسی صدر mackron کا کہنا تھا کہ نیٹو فوجی اتحاد ہے، جبکہ چین سے تعلقات صرف فوجی نہیں۔ دوسری جانب چین نے نیٹو پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ چین کی امن ترقی پر بہتان لگا رہے ہیں۔ اور زور دیا کہ چین کسی کے لیے چیلنج نہیں پیش کرے گا لیکن اگر کوئی چیلنج ہمارے قریب آیا تو ہم ہاتھ باندھ کر بیٹھے بھی نہیں رہیں گے۔ درحقیقت چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھتے ہوئے امریکہ کی وقت کے ساتھ ساتھ پریشانی بڑھتی جا رہی ہے اور نیٹو کو خدشہ ہے کہ چین یورپی ممالک کی سکیورٹی اور ان کے جمہوری اقدار کے لیے خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ نیٹو چین کے افریقہ میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے بھی پریشان ہے۔ اصل میں چاہے یہ نیٹو ہو یا جی سیون ممالک یا
quadگروپ ان سب کے پیچھے تو امریکہ ہی ہے ۔ اس سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ جی سیون کی طرح نیٹو 30 یورپی اور شمالی امریکی ممالک کا ایک انتہائی اہم اور طاقتور سیاسی اور عسکری اتحاد ہے جو امریکی عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی مکمل اہلیت رکھتا ہے۔ اب سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا نیٹو کا ایجنڈا 2030 روس اور چین کو سامنے رکھ کر بنایا جا رہا ہے؟

۔ اس حوالے سے نیٹو سیکٹری جنرل کا کہنا ہے کہ روس کے اپنے پڑوسیوں یوکرین اور جارجیا سے تعلقات ٹھیک نہیں، وہ سائبر اور ہائبرڈ حملے کر رہا ہے، یہ وہ چیز ہے جس نے ہمارے اور روس کے درمیان اعتماد کو نقصان پہنچایا ہے، ہم اسے دیکھ رہے اور اس کے ساتھ ہی اپنے آپ کو تبدیل بھی کر رہے ہیں۔ ہم علاقے میں اپنی فوجی موجودگی اور اپنے دفاعی اخراجات میں
2014 سے مسلسل اضافہ کر رہے ہیں، یہ ہمارے 2030initiative کا اہم حصہ ہے۔۔ دوسری جانب چین کے بارے میں نیٹو سیکٹری جنرل نے کہا کہ وہ ہمارے دروازے پر آچکا ہے، ہم اسے سائبر اسپیس، افریقا اور سرد علاقوں میں دیکھ سکتے ہیں، اس کے ساتھ ہی وہ ہمارے انفرااسٹرکچر میں بھاری سرمایہ کاری کے ذریعے اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین نئے نیوکلیئر اور جدید ہتھیار بنارہا ہے، اس کا بھی رویہ جنوبی چین سمندر میں زبردستی والا ہے۔ اس نے ہانگ کانگ میں جمہوری process پر کریک ڈاؤن کیا ہے اور اس کا رویہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ بھی ٹھیک نہیں، وہ نئی artifical intelligence کا استعمال کرتے ہوئے انہیں دبا رہا ہے۔

دراصل امریکا سمیت چند ملکوں کے مذموم مقاصد بے نقاب ہو چکے ہیں۔ حالانکہ عالمی وبا کے باعث دنیا کو جس معاشی بحران کا سامنا ہے ۔ اس سے نمٹنے کیلئے تمام ملکوں کو اتحاد اور تعاون کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی مگر اس کے بجائے امریکہ اپنی سیاست کے ذریعے دنیا کو تقسیم کر رہا ہے ۔ اس مصنوعی محاذ آرائی اور کشیدگی پیدا کرنے کے بجائے عالمی تعاون کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے تھی ۔ مگر ایسا نہ ہورہا ہے نہ ہونے کی امید ہے ۔

Shares: