ماہ مہمان کی قدر کیجئے،ازقلم :غنی محمود قصوری

0
60

ماہ مہمان کی قدر کیجئے

ازقلم غنی محمود قصوری

روزے کو عربی میں صوم، صیام کہتے ہیں جس کے لغوی معنی ہیں کہ کسی چیز سے اپنے آپ کو روکے رکھنا
اگر ہم بغور مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ صیام یعنی روزے کا اصل باشرع مقصد و مطلب ہے کہ اللہ کی خوشنودی کے لئے سحری سے نماز مغرب تک خود کو کھانے پینے و نکاح کے باوجود جماع جیسے جائز کام سے روکے رکھنا ہے

روزوں کی فرضیت کا حکم سنہ 2 ہجری میں تحویل قبلہ کے واقعہ سے کم و بیش دس پندرہ روز بعد نازل ہوا

آیت صیام شعبان کے مہینے میں نازل ہوئی جس میں رمضان المبارک کو ماہ صیام قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ

البقرة
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) راہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں۔ پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے

اسلام میں ہر عمل کا اجر بتایا گیا کے مگر رمضان کے روزے کا اجر ایسا ہے کہ اسے اللہ تعالی ہی جانتے ہیں اس بارے یہ حدیث ہے

ابن آدم کا ہر عمل دوگنا ہوتا ہے، نیکی کا اجر دس سے لیکر سات سو گنا تک جاتا ہے، اللہ عزّوجل نے فرمایا،روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اسکا اجر دوں گا کیونکہ اس میں میرا بندہ اپنی شہوت اور کھانے پینے کو میری وجہ سے چھوڑ دیتا ہے روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اسکی افطاری کے وقت اور دوسرے اپنے رب سے ملاقات کے وقت، اسکے ( روزہ دار) منہ کی بو اللہ کو کستوری کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے (متفق علیہ )

اس ماہ رمضان کی حرمت یہ ہے کہ صحیح بخاری میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں

اللہ رب العزت کی رحمت بہت وسیع ہے وہ تو اپنی رحمت سے اپنے بندوں کو معاف کرنے کا بہانہ ڈھونڈتا ہے تاکہ خطاءکار حضرت انسان کی اصلاح کرکے اس کے گناہ معاف فرما کر اسے جنت کا راہی بنایا جائےاسی لئے اللہ رب العزت نے اس ماہ مقدس کو مہمان بنا کر بیجھا تاکہ ہم گناہوں سے بچ سکیں اور نیک اعمال کرکے جنت میں جائیں جس طرح ہم دنیا میں آنے والے مہمان کی خاطر اس کی تکریم کی خاطر اپنے گھر کو صاف کرتے اور گھر کی تزئین و آرائش کرتے ہیں بلکل اسی طرح ہمیں اس ماہ مقدس ماہ مہمان کی آمد سے پہلے اپنے دل کو صاف کرنا چائیے –

ہر اس برائی سے بچنا چائیے جس سے ہمیں اسلام نے منع فرمایا ہے تاکہ آنے والا مہمان ماہ صیام کو پتہ چلے کہ ہم اسکا خوب شاندار استقبال اس کی عزت و تکریم میں کر رہے ہیں جس طرح ایک خوش اخلاق مہمان جاتے ہوئے گھر کے چھوٹے بچوں کو یاں پھر کسی اور کو تحفتاً کچھ نقدی جا اور چیز جا کر جاتے ہیں بلکل اسی طرح یہ ماہ مہمان ہمیں جاتے ہیں اپنی صحیح اسلامی خاطر تواضع کے عیوض متقی اور پرہیز گار بنا کر جاتا ہے اور عید الفطر جیسی خوشی و متقی بن جانے پہ جنت کی بشارت دے کر جاتا ہے اب آگے ہماری مرضی ہے کہ ہم ماہ مقدس ماہ رمضان کے جانے کے بعد بھی اسی عقیدے پہ چل کر جنت کے پکے حق دار رہتے ہیں کہ نہیں-

ماہ رمضان کے اندر جس طرح ہم اپنے گھر والوں کے لئے عمدہ سے عمدہ کھانوں کا اہتمام کرتے ہیں ویسے ہی ہمیں چائیے کہ اپنے پڑوسیوں عزیزوں رشتہ داروں کا بھی خیال رکھیں جو مالی طور پہ کمزور ہیں ان کی مدد کی جائے تاکہ وہ بھی اچھے طریقے سے سیر ہو کر روزہ رکھیں اور افطار کریں کیونکہ آپ کے صدقہ خیرات کے علاوہ عام مالی مدد کا سب سے پہلا مستحق آپکا اپنا بہن بھائی پھر اسے کے بعد آپکا ہمسایہ و گلی محلے والا اور رشتہ دار ہیں اس کے بعد دیگر جماعتیں و لوگ آتے ہیں اگر قرآن وحدیث کا مطالعہ کریں تو صدقے خیرات کے اولین حقدار یہی لوگ ہیں مگر افسوس آج ہم لاکھوں روپیہ لگا کر افطار پارٹیاں تو کرتے ہیں مگر اصل حقدار ان افطار پارٹیوں کے قریب بھی نہیں دیکھے جاتے-

میں افطار پارٹیوں کے خلاف نہیں مگر ایک بات یاد کرواتا چلو آپ نے اگر اپنے اصل حقدار تک اس کا حق نہیں پہنچایا اور اس کے بغیر آپ پہلے سے مالی مستحق دوستوں یاروں کی افطار پارٹیاں کر رہے ہیں تو یاد رکھیں روز قیامت اس پہ پوچھ ہو گی اور رب کی طرف سے پکڑ بھی ہو گی افطار پارٹیاں ضرور کیجئے مگر اس سے پہلے اصل حقداروں تک اس کا حق پہنچائیے-

سوچیں اصل حقداروں کا حق مار کر کسی اور کو راضی کرکے ہم رب کو راضی کر سکیں گے؟ہر گز نہیں باقی روزہ دار کی افطاری کروانا بہت بڑا ثواب ہے اس بارے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے

حضرت زید بن خالد رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی روزے دار کو افطار کروائے یا کسی مجاہد کا سامان سفر تیار کروائے تو اسے بھی اس کے مثل اجر ملے گا (بیہقی)

آخر میں ایک بار پھر یاد کروا دو پہلے اپنے اصل حقدار راضی کرو ان کا حق ان تک پہنچاؤ پھر لاکھوں کروڑوں لگا کر افطار پارٹیاں کرو اور ان افطار پارٹیوں میں بھی غریب غرباء کو یاد رکھواللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین

Leave a reply