مہنگائی، صبر اور رافع کی جدوجہد!
تحریر:حسن معاویہ جٹ
رافع نے درسِ نظامی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد علم کو آگے منتقل کرنے کے لیے ایک مدرسے میں استاد کے طور پر خدمات کا آغاز کیا، ماہانہ تنخواہ 12 ہزار روپے مقرر کی گئی۔
تین سال تک رافع نے اس تنخواہ پر محنت سے تدریس کا عمل جاری رکھا۔ مہنگائی کے طوفان نے سر اٹھایا تو مدرسہ انتظامیہ نے تنخواہوں کا جائزہ لینے کا سوچا۔ سوچ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے مدرسین کی تنخواہوں میں رد و بدل کا فیصلہ کیا گیا۔
رافع کی تنخواہ مہنگائی کے باعث 12 ہزار روپے سے کم کر کے 9 ہزار 5 سو روپے کر دی گئی۔ حالات پہلے ہی دگرگوں تھے، مگر پھر بھی صبر کیا۔ مہنگائی کے اس وار کے باوجود رافع نے "آہ” بھرنے کے بجائے دین کی خدمت کو اپنی ترجیح بنائے رکھا اور اپنے کام کو ایمانداری اور لگن سے کرتا رہا۔
رافع کو مہنگائی کے اس وار نے سبق سکھایا۔ کسی کی طرف دیکھنے یا ہاتھ پھیلانے کے بجائے اس نے تدریس جاری رکھتے ہوئے چھوٹا سا کاروبار شروع کیا۔ اس نے وہاں سے رزقِ حلال کمانے کی کوشش کی، یوں وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچ گیا۔ حالات پہلے سے بہت بہتر ہو گئے۔ رافع اب دین کی خدمت بھی مزید اچھے طریقے سے کرتا ہے اور محنت و مشقت سے دنیا کا کام کرکے رزقِ حلال کما رہا ہے۔
رافع کا یہ عمل اُن مدرسین کے لیے آگے بڑھنے کا ایک بہترین عملی سبق ہے جو کم تنخواہ کے باعث مالی تنگی کا شکار ہیں۔ انہیں چاہیے کہ دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ دنیا کمانے میں بھی کچھ مصروف ہوں تاکہ دین کی سمجھ رکھنے والے افراد معاشرے میں سر اٹھا کر جی سکیں۔
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی!
رہے نام اللہ کا
نوٹ:کسی سے مماثلت کو اتفاق سمجھا جائے۔