قفس کو کھولو تو اڑ کر تمھیں دکھاؤں گی، میں آسمان سے اونچی اڑان رکھتی ہوں

شباب ، رنگ حنا، حسن، کچھ نہیں باقی ہے آج ہجر کا موسم بہار تھوڑی ہے

شباب ، رنگ حنا، حسن، کچھ نہیں باقی
ہے آج ہجر کا موسم بہار تھوڑی ہے

فرح کامران

نیو جرسی، امریکہ سے تعلق رکھنے والی اردو شاعرہ اور نثر نگار فرح کامران کی پیدائش 31 اگست 1978 کو کراچی میں ہوئی مگر ان کی زندگی اسلام آباد میں گزری- 2001 میں وہ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ امریکہ منتقل ہوگئیں۔ تراجم کے شعبے سے عملی وابستگی جہاں ان کے ادبی ذوق کو ابھارتی رہی وہیں ان کے گھر کے ماحول میں بھی شعر و ادب رچا بسا تھا- ان کے شوہر کامران ندیم اردو کے مقبول شاعر تھے جو کینسر کے مرض کے باعث 2015 میں انتقال کر گئے- اسی موڑ سے فرح کامران کے ادبی سفر کا آغاز ہوا اور وہ امریکہ کی ادبی محفلوں میں شامل ہوئیں اور جلد ہی اپنی پہچان مستحکم کر لی-

فرح کے والد سید خورشید مصطفیٰ کا تعلق الٰہ آباد سے تھا اور وہ سینٹرل بورڈ آف ریونیو میں جوائنٹ ڈائریکٹر تھے- فرح کامران نے ابتدائی تعلیم اسلام آباد سے حاصل کی اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے کیا- بعد میں انہوں نے نیو جرسی امریکہ سے ایجوکیشن میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی-

فرح کامران نظم اور غزل، دونوں میں یکساں دلچسپی رکھتی ہیں اور دونوں ہی جگہ اپنا منفرد اسلوب بھی رکھتی ہیں- شاعری کے علاوہ وہ نثر سے بھی وابستہ ہیں اور افسانہ، مضمون اور تنقید نگاری ان کے میدان ہیں- فرح کامران کو نظامت کا اختصاص بھی حاصل ہے اور اکثر ادبی تقریبات اور مشاعروں کی میزبانی بھی کرتی ہیں- اپنی ادبی سرگرمیوں کے علاوہ فرح کامران سماجی میدان میں بھی سرگرمِ عمل ہیں اور کامران ندیم فاؤنڈیشن کی روحِ رواں بھی ہیں- وہ “فرح کامران، ارباب ذوق کے ساتھ” کے عنوان سے سب رنگ ٹی وی کے پروگرام کی میزبانی بھی کرتی رہیں- ان کی شعری و نثری تخلیقات امریکہ اور دیگر ممالک کے رسائل و جرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں-

متفرق اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظے کا سب ورثہ چھوڑنے پہ راضی ہوں
یاد کی گلی میں بس اک مکان رہنے دو

اس اعتماد سے رکھا ہے آسماں پہ قدم
کہ اب گری تو میں گر کر سنبھل بھی سکتی ہوں

قفس کو کھولو تو اڑ کر تمھیں دکھاؤں گی
میں آسمان سے اونچی اڑان رکھتی ہوں

موجِ خوں ساحلِ مژگاں پہ ٹھہرتی ہی نہیں
ایسا طوفان اٹھاتی ہے یہ ڈھلتی ہوئی شام

کہیں بات درد و الم کی ہو، مری داستانِ الم سنا
کہیں گھر اجڑنے کا ذکر ہو مرے آشیانے کی بات کر

کشتِ جاں میں رات بھر بوتی رہی تخمِ خیال
صبح دم نخلِ تخیل پر کھلے غنچے نئے

شباب، رنگِ حنا، حسن، کچھ نہیں باقی
ہے آج ہجر کا موسم، بہار تھوڑی ہے

Comments are closed.