میں ہوں ناں
تحریر : سیدسخاوت الوری
میں نے اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے پاکستان کو بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے۔۔۔۔ پہلی بار جوش تھا، جذبہ تھا، خوشی تھی کہ ہم ایک ایسے اسلامی وطن کے مالک ہیں، جہاں اللہ تبارک تعالی کا نازل کردہ آفاقی نظام نافذ ہوگا۔ حضور پاک صل اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر سنت کے مطابق عمل ہوگا۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہو گی ا ور کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ اسی اسلامی نشاط ثانیہ کی سوچ میں مسلمانان ہند نے جان و مال، عزت و آبرو جہتی کہ اپنے بزرگوں کی قبروں تک کو غیر مسلموں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر دیار پاک کی راہ لی ۔ دوسری بار اسلامی تعلیمات سے منحرف سیاستدانوں کی خود غرضی سے مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قت لعام، اقتدار کے بھوکوں کا دشمنان ملک وملت کی گود میں بیٹھ کر وطن عزیز کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر دو لخت کر دینا تھا، جس پر آج بھی شرمندگی ہے۔ اور آج قومی سیاسی رہنمائوں کی مفادات سے بھر پور قیادت ،،ایڈ یٹ ہے، لیکن اپنا ہے، کی سیاست، اشرافیہ کی مبینہ کرپشن کی کہانیاں، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر قومی خزانے کی لوٹ مار پر مبنی مضامین و پروگرامز میں کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات سن اور پڑھ کر میں اپنی عمر کے 87 اور وطن عزیز کی75 سالہ قومی زندگی کے چوراہے پر کھڑا سوچ رہا ہوں کہ یا الہی صراط مستقیم کونسا ہے۔ سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو عقل کام نہیں کرتی، بولنے کی جرات رندانہ پیدا کرتا ہوں تو بولنے سے ڈر لگتا ہے اور پھر نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔ اس دوران پاکستانی سیاست کی یہ تاریخ رہی ہے کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اقتدار اور اختلاف کے نشے میں ایسی ایسی بیوقوفیاں کیں کہ الامان الحفیظ۔ سیاسی اختلافات بڑھے تو غیر سیاسی قوت کو دعوت دی تو فوج اقتدار پر براجمان ہوئی، ایوب خان کے جانشین یحیی خان اور اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں کی انا پسندی نے سقوط ڈھاکہ کی منظر کشی کر کے پاکستان کا نقشہ تبدیل اور تقریبا نوے ہزار قیدیوں کے حوالے سے اسلامی تاریخ میں انتہائی شرمناک باب کا اضافہ کر دیا۔ اس شرمناک حرکت کا ذمہ دار کون ہے ، تاریخ آج بھی خاموش ہے۔ جس کی وجہ سے ان تاریخی سیاسی کرداروں کے خونی اور سیاسی وارث آج بھی پاکستانی سیاست یا قیادت پر قابض ، بلکہ اپنے بزرگوں کی متعین کردہ راہ کے مسافر ہیں ۔ آج پھرانا کا مسئلہ ہے، افواہیں زدعام ہیں ، سیاست دان اور انکے کارکنان موجودہ سیاسی چپقلش کو انا یافنا سے تعبیر کرتے ہوئے ریموٹ کنٹرولڈ ہو گئے ہیں۔ قوت برداشت اور صبر کا مادہ جو سیاست کی بنیاد ہے ختم ہو چکا ہے۔ اِدھر ہم اُدھر تم کا منظر نامہ پیش منظر ہے۔ قومی ادارے نا قابل اعتبار گردانے یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑ وا تھو تھو کئے جارہے ہیں ۔ غیر یقینی کیفیت کی باعث معیشت کی زبوں حالی کی باعث عوام کی اکثریت ناصرف نان شبینہ سے محروم بلکہ ذہنی مریض بھی ہو گئی ہے، جس کی باعث دگرگوں ملکی وقومی حالات میں کسی بھی وقت معمولی سی تپش بھی اسے آتش فشاں بنا کر بین الاقوامی مسئلہ پیدا کرسکتی ہے ۔ بین الاقوامی مسلمہ اصول ہے کہ جب تمام راستے مسدود ہو جائیں اور جان بچانے یا بندگلی سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو ایسی صورت میں آخری پیغام ( ایس اوالیس، زندگی بچانے کی اپیل )کیا جاتا ہے۔ تا کہ قرب و جوار میں موجود کسی طور کسی مدد کی صورت پیدا ہو سکے اور جس قدر ہو سکے جانی یا مالی نقصان سے بچا جا سکے بچیں۔ یہی فعل طبی زبان میں آپریشن کہا جاتا ہے، جو بحالت مجبوری مریض کی جان بچانے کیلئے کیا جاتا ہے۔ مذکورہ اصول کی روشنی میں،میں(بارہ سالہ معصوم کا رکن تحریک قیام پاکستان و چشم دید گواہ ہجرت ) تمام محب وطن سیاسی قائدین سے دست بدست عرض گزار ہوں کہ وہ سوکنوں کی اس لڑائی سے کنارہ کش ہو کر گھر تباہ کرنے کی ناپاک سازش کو ناکام بنانے میں اپنا قومی اور اخلاقی فرض ادا کریں، نیز محب وطن مقتدر حلقوں اور صاحبان عقل و دانش سے بھی استدعاہے کہ سیاسی وابستگی سے قطع نظر قوم و ملک کے وسیع تر مفاد میں بابائے قوم کی طرح ایک اصولی مئوقف اتحاد تنظیم اور یقین محکم اختیار کر کے بچگانہ ذہنیت کے حامل مفاد پرست اور سیاسی نابالغوں کو یکسر مستر دکر کے اپنی قومی اور اسلامی حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے قائد اعظم کے فرمان عالیشان ، پاکستان تا قیامت قائم رہنے کیلئے وجود میں آیا ہے، کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا فرمائیں، راہ میں حائل دشواریوں کو دور کرنے میں پیش آنے والی ہر رکاوٹ کو پوری قوت اور عوامی طاقت سے دور کیا جائے ۔ یادر کھیئے ، پاکستان ہے تو ہم ہیں، ورنہ آج آسٹریلیا نے پاکستانی کرپٹ مافیا کے داخلے پر پابندی لگائی ہے، خاکم بدہن کل ہم سب کتوں کی طرح مارے مارے پھر رہے ہونگے اور کوئی ہمیں پہچاننے یا قبول کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔ بہر حال یہ میری ذاتی مخلصانہ رائے ہے، جس میں حب الوطنی کے علاوہ نا کوئی چورن ہے اور نا ہی کسی کی مخالفت یا موافقت، کیونکہ ان ہی سیاستدانوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جمہور کو ووٹ ڈالنے کے علاوہ تمام حقوق سے محروم کر کے، جمہوریت بہترین انتقام ہے، کا نعرہ دیا ہے۔ علاوہ ازیں اگر مقتدرہ حلقے انا کو دفن کر کے عہد یقینی فرمائیں کہ میری تحریری تجاویز پر من وعن عملدرآمد ہوگا تو پوری ذمہ داری سے تحریری وعدہ کرتا ہوں کہ ملک اور قوم کی بقا ، سلامتی ، تمام قومی مسائل کے حل اور تعمیر وترقی کیلئے د ئیے گئے اہداف کی بروقت عدم تکمیل پر ہر مجوزہ سزا بھگتنے کیلئے تیار ہوں۔ صرف تین ماہ کے عرصے میں آثار نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ ان شا اللہ ۔۔۔۔۔ یادر ہے، تاریخ کے دانت نہیں ہوتے لیکن یہ کاٹتی بہت زور سے ہے۔

Leave a reply