چھ اگست 2025 کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے ملک کی بیورو کریسی کے متعلق انکشاف کیا تھا کہ آدھی سے زائد بیورو کریسی پرتگال میں جائیدادیں خرید چکی ہے، دوسری جانب پاکستان کی وفاقی حکومت میں اس وقت اٹھاون وزارتیں اور لا تعداد مشیر کام کر رہے ہیں، یہ تعداد وقتاً فوقتاً کم زیادہ ہوتی رہتی ہیں کبھی وزارتوں کو ضم بھی کر دیا جاتا ہے تو کبھی ناراض اراکین کو نکال دیا جاتا ہے، ان وزارتوں کے انڈر میں تقریباً چالیس سے زائد بڑے محکمے کام کرتے ہیں، بہت سے محکمے اور وزارتیں ایسی ہیں جو ہونی ہی نہیں چاہیے۔صرف لاہور شہر میں چھ جی او آر ہیں، جہاں مختلف سرکاری افسران کو رہائش فراہم کی جاتی ہے، بیوروکریسی کو ہر طرح کی سہولیات فراہم ہیں، ڈرائیور، کک، آفس بوائے، سب کچھ میسر لیکن کام زیرونظر آتا ہےیہ صرف پنجاب یا لاہور کا مسئلہ نہیں بلکہ سندھ ، کے پی، بلوچستان ، ہر جگہ مافیہ نے اداروں کو عیاشی کا اڈا بنایا ہوا ہے۔

واسا ایک وسیع بجٹ لینے کے باوجود برسات میں پانی کی نکاسی کا انتظام نہیں کر سکتا، بیوروکریٹس جو سب کچھ اس ملک کا کھاتےجا رہے ہیں ، غریب عوام کے احساس تک نگل جاتےہیں، سہولیات ان کو نمبر ون چاہیے ہوتی ہیں ورنہ پریس کلب، سیکرٹریٹ یا مال روڈ پر احتجاج کروا دیا جاتا ہے، آئے دن پورا لاہور شہر بند کر دیا جاتا ۔ میں اگر چھوٹی سہولیات کی بھی بات کروں تو یہ اخراجات ملک کو کھا رہے ہیں، اگست دو ہزار چوبیس میں پنجاب حکومت کے صوبائی خزانے سے اسپیکر کیلئے اٹھارہ کروڑ کی پانچ گاڑیاں خریدی گئیں تھیں۔ جنوری دو ہزار پچیس میں صرف ایف بی آر نے حکومت کی گردن پر پاؤں رکھ کر چھ ارب روپے مالیت کی ایک ہزار دس گاڑیاں حاصل کیں، جن میں سے کچھ مل چکیں اور کچھ باقی ہیں، یہ وہی ادارہ ہے جو اپنا ٹیکس ہدف بھی پورا نہیں کر سکا، جس دن گاڑیاں خریدی گئیں اسی ادارے کو تین سو پچاسی ارب ٹیکس شارٹ فال کا سامنا تھا۔

عمران خان کی حکومت کے بعد صرف ویگو ڈالے کی تین سو گاڑیاں روزانہ بک رہیں تھیں اگست دو ہزار چوبیس تک تین سال میں چار سو پچاس ارب روپے کی پینتیس ہزار گاڑیاں بک چکی تھیں، اگست دو ہزار چوبیس میں پتہ چلا کہ سندھ حکومت نے اسسٹنٹ کمشنرز کیلئے ایک سو اڑتیس لگژری گاڑیاں خریدنے کیلئے دو ارب روپے مانگے جبکہ اگلے مہینے یعنی ستمبر میں پتہ چلا کہ سندھ حکومت کے پاس اربوں روپےکی دو سو سے زائد فالتو گاڑیاں پہلے سے موجود ہیں جو بغیر مناسب دیکھ بھال یا استعمال کے کباڑ بن رہی تھیں ان میں سے آگ لگنے سے تیس سے زائد گاڑیاں جل گئیں تھیں۔ ستمبر دو ہزار چوبیس میں وفاقی وزراء کیلئے پچیس لگژری گاڑیاں خریدی گئیں حالانکہ پابندی لگی تھی،اس تمام عیاشی کے باوجود بیوروکریٹس حکومت اور عوام سے ناراض رہتےہیں ۔
برطانیہ میں حکومت کے پاس جو سرکاری گاڑیاں ہیں ان کی کل تعداد پینتالیس ہے ،یعنی پینتالیس گاڑیوں کا ایک پول ہے جو تمام وزارتوں اور سرکاری دفاتر میں استعمال کیا جاتا ہے اور کوئی گاڑی کسی کے نام پر نہیں ہے ، دوسری طرف صرف صوبہ سندھ میں سرکاری گاڑیوں کی تعداداٹھارہ ہزار ہے اور پنجاب حکومت پچیس ہزار گاڑیوں کی مالک ہے۔ خیبرپختونخوا کی افسرشاہی سرکاری گاڑیوں پر سالانہ تقریباً سات ارب روپے کے تیل کی مفت سہولت لے رہی ہے ، پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت نے دو ہزار اکیس سے بائیس میں نئی گاڑیوں کی خریداری پر تین اعشاریہ دوارب روپے خرچ کئے۔سال دو ہزار بائیس سے تیئس کے میڈیا اعدادوشمار کیمطابق خیبرپختونخوا میں محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میں سولہ ہزار ایک سو ایک سرکاری گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں اور دو ہزار سترہ کے بعد کے ماڈل کی چار ہزار نوسو دس نئی گاڑیاں رجسٹر ہوئیں،کے پی حکومت نے صرف سال دو ہزار اکیس سے بائیس کے دوران تقریباً چار ارب روپے ادا کیے ، یوں ایک سال کے دوران گاڑیوں کی مرمت پر ایک ارب بیس کروڑ روپے خرچ ہوئے۔

میں نے موٹا موٹا حساب نکالا وہ تقریباً چوبیس ارب اسی کروڑ سات لاکھ سے زائد رقم بنتی ہے، یعنی صرف ایک کے پی حکومت نے سال دو ہزار سترہ سے دو ہزار بائیس تک اربوں روپے عیاشی میں اڑا دئیے جو صرف گاڑیوں کی مد میں چلے گئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں سرکاری گاڑیوں کی تعداد حکومتی اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے جن کا ریکارڈ محکمہ ایکسائیز کے پاس موجود ہی نہیں یا پھر وہ اسلام آباد میں رجسٹرڈ ہیں ۔سرکاری ریکارڈ کے مطابق پنجاب کے حکومتی محکموں میں پچیس ہزار سے زائد گاڑیاں ایسی ہیں جو ٹوکن ٹیکس کے زمرے میں آتی ہیں۔ جن میں سے سترہ ہزار دو سو تہتر گاڑیاں اس وقت محکمہ ایکسائز کی ڈیفالٹر لسٹ میں شامل ہیں۔یعنی پنجاب حکومت کے پاس پچیس ہزار سرکاری گاڑیاں موجودہیں اور ستر فیصد سے زائد گاڑیوں کا ٹیکس ہی نہیں ادا ہوا، اور یہ پچھلے سال کی بات ہے جس پر پنجاب حکومت نے اب جا کر ایکشن لینا شروع کیا تھا۔

ملک میں تین کروڑ سے زائد گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں، اور صرف پنجاب میں پچاس فیصد سے زائد گاڑیاں ٹیکس ڈیفالٹر ہیں، نا جانے یہ کون لوگ استعمال کرتے ہیں، ستمبر دو ہزار چوبیس میں حکومت کا وی آئی پیز کیلئے اناسی گاڑیاں خریدنے کا منصوبہ سامنے آیا تھا جن کی قیمت اکسٹھ کروڑ سے زائد تھی، اور بارہ بلٹ پروف گاڑیاں وزیراعظم کیلئے تھیں، پھر یہ خریدی بھی گئیں، وفاقی وزیر قانون کیمطابق ایک وزیر کو تنخواہ کہ علاوہ سہولیات میں پندرہ سو سی سی گاڑی اور چار سو لیٹر پیٹرول ملتا ہے، پچھلے مہینے وزراء کی تنخواہیں بھی بڑھا دی گئی ہیں۔

حیران کن طور پر اس وقت اراکینِ پارلیمان کی صرف تنخواہوں کا مجموعی حجم پینتیس ارب چون کروڑ ستر لاکھ روپے ماہانہ ہے ۔ ہاؤس رینٹ، گاڑی، گھر کے بل، ٹکٹ، بیرون ملک دورے اور رہائش اس میں اسپیکر،ڈپٹی اسپیکر، وزرا، وزرائے اعلیٰ، گورنرز، وزیر اعظم، صدر کی تنخواہیں شامل نہیں ہیں۔مختلف اجلاسوں کے اخراجات اور بونس ملا کرسالانہ خرچ پچاسی ارب روپے کے قریب پہنچ جاتا ہے اور اکثر یہ لوگ خود ٹیکس نہیں دیتے۔ ریٹائرڈ افسرجوغیر ممالک میں اپنی مرضی سے مقیم ہیں انھیں ڈالر اور یورو میں پنشن ادا کی جارہی ہے۔ وزارت خارجہ کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ایسے پنشنرز کی تعداد ایک سو چونسٹھ کے قریب ہے جنھیں غیر ملکی کرنسی میں ہر ماہ پنشن ادا کی جاتی ہے، جس کی مالیت دو سو ملین روپے کے قریب ہے۔

در اصل یہ حقائق کبھی سامنے نہیں آتے مگر آئین میں کی گئی اٹھارویں ویں ترمیم کی شق نائینٹین ۔اےکے عوام کو یہ حقائق جاننے کا موقع مل گیا تھا، افسوس یہ ہے کہ معیشت کا جنازہ یہ اشرافیہ دھوم سے نکالنا چاہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ جہاں عوام روٹی، پانی سے محروم ہے وہاں اپنے حقوق جاننے کا حق کون دے گا؟

نوٹ:لکھاری علی رضا گورنمٹ کالج ( جی سی یونیورسٹی ) لاہور کے اسکالر ہیں جو مختلف اخبارات میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آپ مختلف بڑے نجی چینلز کے ساتھ کام کرچکے ہیں جو بین الاقوامی اور تایخی موضوعات پر خاصی مہارت رکھتے ہیں

Shares: