اردو بولنے والوں کی اکثریت کے باوجود سرکاری سطح پر اردو زبان نظرانداز

جنوبی ہند کی ریاست تامل ناڈو میں اردو بولنے والوں کی اکثریت موجود ہے۔ ریاست کے کئی تعلیمی اداروں میں اردو پڑھائی جاتی ہے۔ چنئی، وانمباڑی اور دیگر شہروں میں اردو ادیبوں، شاعروں، فنکاروں کی خاصی تعداد موجود ہے۔ لیکن علاقائی زبان "ٹامل” کے غلبہ کی وجہ سے یہاں اردو اور دیگر اقلیتی زبانوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ گزشتہ 6 سالوں سے اردو اکیڈمی کا تشکیل نہ دیا جانا اس تلخ حقیقت کی ایک مثال ہے۔ تامل ناڈو اردو رابطہ کمیٹی کے صدر ملک العزیز کاتب نے کہا کہ اردو اکیڈمی کی تشکیل کیلئے موجودہ وزیر اعلی ای کے پلانی سوامی سے دو مرتبہ ملاقات کرتے ہوئے تحریری طور پر یادداشت پیش کی گئی ہے، لیکن حکومت نے اب تک اردو والوں کے اس مطالبہ پر غور کرنا ضروری نہیں سمجھا۔

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے سابق رکن ملک العزیز کاتب نے کہا کہ ریاست میں2011 میں اردو اکیڈمی تشکیل دی گئی تھی۔ یہ کمیٹی 2014 تک قائم رہی، لیکن اس دوران حکومت کے بدلنے اور دیگر وجوہات کی بنا پر اردو اکیڈمی سرگرم عمل نہیں رہی۔ سابقہ اکیڈمی کی تین سالہ معیاد کے دوران اردو کا ایک بھی پروگرام منعقد نہیں ہوا۔ ملک العزیز نے کہا کہ سال 2014 سے اردو اکیڈمی کے قیام کیلئے کئی مرتبہ کوششیں کی گئی ہیں۔ ریاست کی کابینہ میں موجود واحد مسلم وزیر نیلوفر کفیل سے بھی کئی بار درخواست کی گئی ہے، لیکن اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ملک العزیز نے کہا کہ ریاست کی وزیر محنت نیلوفر کفیل اردو علاقے وانمباڑی سے ایم ایل اے منتخب ہوئی ہیں اور وہ خود اردو داں ہیں، لیکن اس کے باوجود اب تک ریاست میں اردو اکیڈمی کا نہ بننا حیرت اور تشویش کا باعث ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں کی خاموشی کے بعد تامل ناڈو اردو رابطہ کمیٹی نے ایک بار پھر اردو اکیڈمی کے قیام کیلئے مہم شروع کی ہے۔ ریاست کے معروف شاعر اور اردو ادیب علیم صبا نویدی کہتے ہیں کہ حکومت کی سطح پر اردو کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے اردو ادیبوں، شاعروں، فنکاروں کو کسی بھی طرح کی مدد حاصل نہیں ہے۔

Comments are closed.