سگریٹ کو مہنگا کرو، زندگی کو قیمتی بناؤ
تحریر:نمرہ امین ،لاہور
قوموں کی ترقی کا انحصار صرف معیشت پر ہی نہیں بلکہ صحت مند افراد پر ہوتا ہے کیوں کہ ایک صحت مند فرد ہی کامیاب معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے۔
پاکستان میں تمباکو نوشی جیسے مہلک رجحانات ہماری نوجوان نسل اور غریب طبقے میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں افراد کی اموات تمباکو نوشی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ سگریٹ صرف ایک نشہ ہی نہیں ہے بلکہ بیماریوں کی جڑ ہے۔ دل، پھیپھڑے، سانس کی تکلیف، کینسر جیسی مہلک بیماریاں انسان کو جکڑ لیتی ہیں اور ان بیماریوں کا علاج بھی پھر مہنگا ہوتا ہے جو غریب کی پہنچ سے دور ہے اور اگر بر وقت علاج نہ کروایا جائے تو انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
سگریٹ صرف جسمانی نہیں بلکہ سماجی زہر بھی ہے۔ جس سے گھر کے ماحول، بچوں کی تربیت پر اثر پڑتا ہے اور آس پاس کہ افراد بھی اس کے دھویں سے متاثر ہوتے ہیں اور وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اسلام میں بھی جسم کو نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچنے کا حکم ہے۔ اسی لیے تمباکو نوشی سے بھی پرہیز ضروری ہے جس سے انسان صحت و توانا رہے گا اور بیماریوں سے بچا رہے گا۔
حوالہ۔ سورۃ البقرہ۔ آیت نمبر 195 "اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔”
حکومت کی جانب سے "سگریٹ پر ٹیکس” لگا کر قیمت بڑھانے کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ سگریٹ کا نشہ نوجوانوں اور غریب لوگوں میں سے کم ہو سکے گا۔ اگر حکومت کی مثبت سوچ ہو کہ تمباکو نوشی کے زہر سے سب کو بچا کر ایک صحت مند زندگی کی طرف راغب کرنا ہے۔ ان کو بے شمار بیماریوں سے بچانا ہے۔ تو یہ حکومت کی بہت اچھی نیکی ہے ساری عوام کے ساتھ۔ جو سگریٹ پر ٹیکس لگا کر چھوٹے طبقے کے لوگوں کی پہنچ سے دور رکھ سکیں۔ جس کی وجہ سے وہ اور ان کے اہل و عیال صحت مند خوشحال زندگی بسر کر سکیں گے۔ کیوں کہ غریب عوام کو زیادہ تر بیماریاں، تمباکو نوشی کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں۔ سگریٹ پر ٹیکس کا مقصد غریب لوگوں کو نقصان پہنچانا نہیں ہے بلکہ ان کو صحت مند زندگی گزارنے پر آمدہ کرنا ہے۔
"سگریٹ پر ٹیکس” واقعی اس کی قیمت بڑھا دیتا ہے جو نوجوان اور غریب طبقے کے لوگوں کی پہنچ سے دور ہو جاتا ہے اور ان کے خریدنے کی سکت کو ختم کر دیتا ہے۔
لیکن بعض اوقات مہنگا سگریٹ پہنچ سے دور ہونے کی وجہ سے جس انسان کو نشے کی لت اتنی زیادہ ہوتی ہے وہ سستے کے چکر میں نسوار، پان اور اس قسم کے دیگر نشے کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو انسان کی موت کا سبب بنتے ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ "سگریٹ پر ٹیکس” ہی اس وجہ سے لگایا جاتا ہے کہ لوگ اس کو خرید نہ سکیں اور خود کو صحت مند رہنے کا عادی بنائیں۔
ٹیکس لگنے سے غریب کا ہی فائدہ ہوتا ہے۔ جب سگریٹ مہنگا ہوگا تو وہ سگریٹ کو خرید نہیں سکے گا۔ اس کے پیسے ضائع ہونے سے بچ سکیں گے جس سے اس کی آمدنی میں بچت کے ساتھ ساتھ ہر کام بخوبی نبھایا جا سکے گا۔ وہ بیمار نہیں ہو سکے گا۔ اس کی بیماری کا خرچ بچ سکے گا۔ دو وقت کا کھانا عزت کے ساتھ اس کو ملتا رہے گا۔ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکے گا۔ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی بہتر پرورش اور معیاری زندگی گزار سکے گا۔
تمباکو نوشی صرف نوجوان نسل اور غریب طبقے کی صحت کے لیے مضر ہی نہیں ہے بلکہ ہر انسان کی صحت کے لیے خطرناک ہے۔ نشہ کسی بھی طرح کا ہو وہ انسان کی موت کا ذمہ دار ضرور بنتا ہے۔ اسی وجہ سے حکومت کو اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔ عوامی آگاہی کے لیے مہمات ہونی چاہیے۔ تاکہ لوگوں کو اس کی عقل، سمجھ اور طریقے بتا کر تمباکو نوشی کے ساتھ ساتھ ہر نشے کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اگر حکومت "سگریٹ پر ٹیکس” سے حاصل ہونے والی رقم کو غریبوں کی مدد کرنے ان کے علاج کے لیے، تمباکو نوشی سے بچاؤ کی مہمات کے لیے، کسی کی تعلیم کے لیے اور عوامی فلاحی کاموں کے منصبوں کے لیے استعمال کرے تو بہت سے لوگوں کی امداد کے ساتھ ان کی پریشانیاں بھی حل ہو سکیں گی اور یہ غریب عوام اور معاشرے کے لیے فائدہ مند بھی رہے گی۔
اگر حکومت کا یہ ایک قدم عوام کو اس نشے کی لت سے، بیماریوں سے بچا سکتا ہے تو یہ کوئی غلط فیصلہ نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک نعمت ہے۔ حکومت عوام کو تمباکو نوشی سے ہوئی اموات سے بچا رہی ہے۔ ان کے اہل و عیال کو یتیمی کی زندگی گزارنے سے محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔
نوجوان نسل کو صحت مند معاشرہ دینا چاہ رہی ہے تاکہ ہر نوجوان تعلیم حاصل کر کے ایک با شعور افسر بن کر اپنے ملک پاکستان کی حفاظت کر سکے۔
"سگریٹ کو مہنگا کرو، زندگی کو قیمتی بناؤ۔” !