مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ دو ہفتے سے مختلف افواہوں اور قیاس آرائیوں کے درمیان مودی نے اچانک مقبوضہ کشمیر کی سبھی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا ہے جو کل دلی میں ہو گا۔
۔ بھارت نواز پیپلز الائنز میں شامل سبھی جماعتوں نے طے کیا ہے کہ وہ اس اجلاس میں شریک ہوں گے ۔ اس اجلاس کا اصل مقصد کیا ہے ۔اس کی تشہیر نہیں کی جا رہی ہے۔ مگر جان بوجھ کر حریت پسندوں کو اس اجلاس سے دور رکھا گیا ہے ۔
۔ یہ درست ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے بھارت نے کبھی مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پر اگر دیکھا جائے تو چند روز پہلے انڈیا پاکستان کے درمیان اچانک جنگ بندی ہوئی۔ متحدہ عرب امارات نے بھی کہا کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت میں مدد کر رہا ہے۔ اب انڈیا اور پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر بھی تاجکستان میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کی میٹنگ میں ایک ساتھ ہوں گے۔
۔ اس لیے بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ کشمیر کے بارے میں پس پردہ کچھ ہو رہا ہے۔ ابھی اس مرحلے پر اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ انڈیا نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے۔ اسے ریاست سے مرکزی علاقہ بنانے اور دوسرے سبھی معاملات میں کشمیر کی قیادت یا عوام کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ جس کے سبب بین الاقوامی سطح پر انڈیا پر تنقید بھی ہوئی اور پریشر بھی بڑھا ۔ خاص طور پر ابھی بھی انٹرنیشل فورمز پر جو بھارتی سفارت کاروں سے جو سب سے پہلا سوال ہوتا ہے وہ مقبوضہ کشمیر بارے ہی ہوتا ہے ۔ جس کی وجہ سے بھارت کو اکثر موقعوں پر سبکی کا سامنا بھی رہا ہے ۔
۔ اس لیے اس آپشن کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ مودی بات چیت کا راستہ کھول کر شاید اب دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ کشمیر میں صورتحال معمول پر ہے۔ سیاسی عمل شروع ہو چکا ہے اور سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے ریاست میں انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ تو اس طرح کے اقدامات سے بھارت کو نکتہ چینی کا جواب دینے میں آسانی ہو گی۔
۔ دوسری جانب مودی حکومت نے کشمیر کے منظر نامے سے حریت پسندوں کو کامیابی کے ساتھ سائیڈ پر کر دیا ہے۔ یاد رکھنے کی چیز ہے کہ اب بات چیت حریت پسندوں سے نہیں بلکہ ہند نواز جماعتوں سے ہو رہی ہے اور یہ جماعتیں زیادہ خود مختاری اور دوسرے سوالات کے بجائے کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے جیسے سوالات اٹھائیں گی۔۔ جیسا کہ محبوبہ مفتی نے پہلے تو نہ کی کہ وہ نہیں جائیں پھر ہاں کردی کہ وہ جائیں ۔ اور میڈیا ٹاک میں یہ بھی کہا کہ ہمیں آئین نے جو حق دیا اور جو ہم سے لے لیا گیا۔ اس کی بحالی کا ہم مطالبہ کریں گے۔ ۔ فاروق عبداللہ نے بھی کشمیر کی 5 اگست 2019 سے پہلے والی پوزیشن بحال کرنے کی بات کی ہے ۔۔ کانگریس رہنما غلام نبی آزاد کو بھی کشمیر کے سابق وزیر اعلی کے طور پر اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ اس پر انھوں نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی ریاست کے طور پر بحالی اس اجلاس کا سب سے اہم موضوع ہو گا ۔
۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نریندر مودی لداخ سے کاٹے ہوئے ’’جموں وکشمیر‘‘ کا ’’ریاستی تشخص‘‘ بحال کرنے کا عندیہ دے۔ مگر اس تشخص کی ’’بحالی‘‘ کا اصل مقصد مگر یہ ہوگا کہ لداخ سے کاٹے مقبوضہ جموں وکشمیر کی ’’صوبائی‘‘ حیثیت بحال کی جائے۔ ایسی بحالی کے لئے ’’ریاستی‘‘ یعنی صوبائی اسمبلی کے انتخاب ہوں ۔ مقبوضہ کشمیر میں محصور ہوئے بے بس ولاچار بنائے شہری ان میں حصہ لیں۔
’’اپنے نمائندے‘‘ چنیں تاکہ لداخ سے طاقت کے زور پر الگ کئے مقبوضہ جموں وکشمیر کے ’’مقامی اور صوبائی‘‘ معاملات کو براہ راست دہلی سے چلانے کی ضرورت نہ رہے۔ اور نام نہاد ’’منتخب صوبائی حکومت‘‘ ہی یہ فریضہ سرانجام دے۔ تو اس حوالے سے پاکستان کو گہری نظر بھی رکھنا ہوگی اورہوشیار بھی رہنا ہوگا ۔ کیونکہ مودی ایک نئی ’’گیم‘‘ کھیلنے کی تیاری میں ہے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی تیاری میں ۔ اس لیے اس گیم کا حقیقت پسندی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ویسے بھارت اپنا پورا زور لگا چکا ہے کہ کشمیر کے مسئلے وہ اپنا ذاتی مسئلہ قرار دے کر دنیا کے سامنے پیش کرے۔ تاہم بھارت سے وابستہ دنیا کے تمام تر کاروباری مفادات کے باوجود عالمی سطح پر کشمیر کو ایک تنازع ہی تسلیم کیا جاتا ہے اور اب تو مقبوضہ وادی میں بھارتی دہشت گردی کا معاملہ تصویری خاکوں ہی نہیں بلکہ میڈیا کی رپورٹ کے ذریعے دنیا کو بھارت کا اصل چہرہ دیکھنے کا موقع مل رہا ہے کشمیری اپنے حق کے حصول کے لئے لازوال جدوجہد کر رہے ہیں ۔ ۔ اگر جائزہ لیا جائے تو مودی سرکار نے اپنی تمام تر قوت اقلیتوں کی نسل کشی میں لگا دیں اس سلسلے میں مقبوضہ وادی پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی ہزار سے زائد لوگ غائب کئے گئے اس سلسلے میں بڑی تعداد میں لوگ گھروں سے گرفتار کرکے غائب کر دیئے گئے ۔
۔ بے بسی اور خوف کے سائے میں جیتی کشمیری خواتین کسی ایسے مسیحا کی منتظر ہیں جو آئے اور انہیں اس خوف سے باہر نکالے کہ اب انکا سہاگ بھارتی فوج کی گولیوں سے محفوظ ہے۔ ۔ مقبوضہ کشمیر کی مجبور اور لاچار خواتین دنیا کے ایوانوں میں بیٹھی خواتین سے انصاف مانگ رہی ہیں۔وہ دنیا کے ایوانوں میں بیٹھی خواتین کو چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں۔سہاگ اجڑ جانے کے بعد انکی مشکالات اور تکالیف کو سمجھا جائے اور بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیری خواتین کے ساتھ جو ظلم و ستم ڈھائے جارہے ہیں اقوام متحدہ میں بیٹھی خواتین اس پر خاموشی کیوں ہیں۔۔ بھارت نے 74 سال سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے ، کشمیری جان و مال اور عزت کی قربانیاں دے کر الحاق پاکستان کے لیے وفاداری کی تاریخ رقم کر رہے ہیں ۔ عالمی طاقتیں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سمیت بین الاقوامی ادارے ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور بدترین کرفیو سے پوری طرح باخبر ہیں لیکن صرف معمولی مذمت جیسے بیانات کے سوا کچھ نہیں۔۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ مغرب ویسے تو دنیا بھر میں ہونے والے چھوٹے سے چھوٹے واقعے پر شور مچاتا ہے لیکن بھارت نے تقریباً سات سو روز سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کر کے پوری وادی کو ایک جیل میں تبدیل کیا ہوا ہے۔ سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزر چکنے کے باوجود یہ مسئلہ آج بھی حل طلب ہے۔ پاکستان کے لیے جموں و کشمیر پر بھارت کا غیر قانونی قبضہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جسے بھول کر پاکستان آگے بڑھ جائے گا۔ یہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور پورے خطے میں امن کا قیام اس مسئلے کے حل سے جڑا ہوا ہے۔
۔ بھارت کی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں کا ہی ایک حصہ یہ بھی ہے کہ اس نے اب تک جموں و کشمیر پر اپنا غیر قانونی قبضہ جمایا ہوا ہے ۔ مگر بھارت کے ہتھکنڈوں سے نہ تو کشمیری اپنے حق سے دستبردار ہوئے ہیں اور نہ ہی پاکستان نے ان کے حق میں آواز بلند کرنا چھوڑا ہے۔۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے 1947 ء سے لے کر اب تک ہمارا واضح اور دو ٹوک موقف رہا ہے۔ اور آج بھی یہ ہی ہے کہ سلامتی کونسل کی قرارداد کی روشنی میں اس مسئلے کو حل کیا جائے ۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو قابو کرنے اور پورے خطے میں امن و امان کے قیام کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو فوری طور پر حل کروائے کیونکہ جتنی مرضی تجارت شروع ہوجائے ۔ جتنی مرضی امن کی آشائیں آپ چلا لیں ۔ جتنے مرضی ثقافتی طائفے یہاں وہاں کربھیج دیں ۔ کشمیر مسئلے کے حل ہوئے بغیر پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ اور پر امن تعلقات ہرگز قائم نہیں ہوسکتے۔