"کیا واقعی اچھی ڈگری اور اچھی نوکری ہی کامیابی کی ضمانت ہیں؟”
ہمارے معاشرے میں بچپن سے یہی سوچ ذہنوں میں بٹھا دی جاتی ہے کہ امتحان میں اچھے نمبر لاؤ، ڈگری حاصل کرو اور پھر ایک اچھی نوکری کے ذریعے "بڑے آدمی” بن جاؤ۔ لیکن حقیقت اس سوچ سے کہیں مختلف ہے۔ آج بہترین ڈگری رکھنے والے نوجوان بھی بے روزگاری کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں اور نوکری مل بھی جائے تو وہ مالی آزادی دینے سے قاصر ہے۔
"معروف کتاب Rich Dad Poor Dad کے مصنف رابرٹ کیوساکی کے مطابق: ‘غریب اور متوسط طبقہ پیسے کے لیے کام کرتا ہے، جبکہ امیر طبقہ پیسے کو اپنے لیے کام پر لگاتا ہے’۔” یہی بنیادی فرق ہمارے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ بدقسمتی سے، ہمارا تعلیمی نظام، جو نوآبادیاتی دور کی باقیات میں سے ہے، طلبہ کو صرف ملازمت کا غلام بناتا ہے، مگر یہ نہیں سکھاتا کہ پیسے کو کس طرح اپنے لیے کام پر لگایا جائے۔ہمارے تعلیمی اداروں میں رٹنے کا رجحان عام ہے، طلبہ کو صرف وہ معلومات یاد کرائی جاتی ہیں جن کی بدولت وہ امتحان میں کامیاب ہوسکیں، مگر عملی زندگی کے مسائل حل کرنے اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں ناکام رہتے ہیں۔ یونیورسٹیاں ڈگریاں تو بانٹ رہی ہیں، لیکن وہ مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ہنرمند نوجوان پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔ اکنامک سروے 2024 کے مطابق، ملک کی 26 فیصد آبادی 15 سے 29 سال کی عمر کے درمیان ہے، لیکن ان میں سے ایک بڑی تعداد کے پاس ایسے عملی ہنر موجود نہیں جو مارکیٹ کی ضرورت ہیں۔ اگر یہ نوجوان مالیاتی شعور اور ہنر سے لیس ہوں، تو ملکی معیشت کے لیے قیمتی سرمایہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
اگر ہم عملی تربیت کی مثال دیکھنا چاہیں تو پشتون معاشرے کو دیکھ سکتے ہیں، جہاں بچے صرف اسکول نہیں جاتے بلکہ بچپن ہی سے اپنے والد کے ساتھ دکان یا کاروبار میں ہاتھ بٹاتے ہیں، اور یہی تربیت انہیں محنت کی عادت، مالی نظم و ضبط اور کاروباری ہنر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ معاشرے پر بوجھ بننے کے بجائے خود بھی روزگار کماتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی مواقع پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرزِ فکر کو ہم سنگاپور اور جرمنی جیسے ممالک کے تعلیمی ماڈلز میں بھی دیکھتے ہیں، جہاں نوجوانوں کو شروع ہی سے عملی ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ دنیا کی بڑی معیشتیں اسی سوچ کے تحت آگے بڑھی ہیں کہ نوجوان صرف نوکری کے خواہاں نہ ہوں بلکہ دوسروں کے لیے بھی نوکریاں پیدا کرنے والے ہوں۔
ہمارے تعلیمی اداروں کو نوکری کے بجائے روزگار پیدا کرنے والے ذہن تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات اہم ہیں
بچوں کو بچت، بجٹ سازی اور سرمایہ کاری کے بنیادی اصول سکھائے جائیں۔
رٹے کے بجائے پروجیکٹ بیسڈ لرننگ متعارف کرائی جائے، مثلاً چھوٹے کاروباری منصوبے شروع کروائے جائیں۔
اساتذہ کو مالیاتی اور کاروباری تعلیم سکھانے کی خصوصی تربیت دی جائے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کو چاہیے کہ مالیاتی تعلیم کو پرائمری اور سیکنڈری اسکول کے نصاب میں لازمی شامل کرے۔
بحیثیت والدین، اساتذہ اور معاشرے کے ہر فرد کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ بچوں کو صرف ڈگری کے پیچھے دوڑانے کے بجائے انہیں اعتماد، تخلیقی صلاحیت اور خطرہ مول لینے کا حوصلہ دینا ہوگا۔ نوکری ایک ذریعہ ہے، حتمی مقصد نہیں۔ اصل کامیابی اس وقت ممکن ہے جب نوجوان روزگار پیدا کرنے والے اور مالی طور پر آزاد ہوں۔
یہی وہ راستہ ہے ،جو پورے معاشرے کو خوشحالی اور معاشی آزادی کی جانب لے جا سکتا ہے۔اگر آج ہم نے اپنی سوچ اور نصاب کو نہ بدلا، تو آنے والی نسلیں بھی اسی گرداب میں پھنستی جائیں گی۔