ملک عدنان۔۔ ایک روشن اُمید ،تحریر:سیدہ ذکیہ بتول

0
42

ایک طرف ہجوم خود کو عاشق رسول اور پراینتھا کمارا کو گستاخ رسول قرار دیکر لبیک یارسول اللّٰہ کے نعروں کے ساتھ ملزم پر ڈنڈے لاٹھیاں مکے اور گھونسے برساتا پوری دنیا کو پیغام دے رہا تھا کہ قانون اور اداروں کی موجودگی میں وہ ہجوم اس قدر طاقتور ہے کہ مذہب کے نام پر سزا جزا کا حقدار تک ٹھہر چکا جبکہ دوسری جانب اسی ہجوم میں واحد شخص جو تشدد روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا مار سہتا رہا مگر انسانیت کو مقدم جانتے ہوئے بہادری سے ایک انسان کو ظلم سے بچانے کی اپنے تہی کوشش کرتا رہا۔۔ مارنے والوں پہ اس قدر جنون طاری تھا کوئی بات کوئی وعدہ کوئی قانون ماننے کو تیار نہ تھے ایک ہی ضد تھی کی ریاست کے قانون کو پاؤں تلے روندو اداروں کو ٹھینگا دکھاؤ اور جسے وہ” گستاخ ” کہہ بیٹھے اسے مار مار کے مار ڈالو۔

ملک عدنان کہتا رہا کہ پراینتھا کو پولس کے حوالے کریں گے مقدمہ چلائیں گے یقین کر لیجیے مگر اسی بحث وتکرار میں سری لنکن مہمان جتھے کے ہاتھ چڑھا پھر ظلم وستم اور درندگی کی جو داستاں رقم ہوئی وہ” ظالموں "میں سے کئی کے کیمروں کی گیلری میں بھی محفوظ ہوئی۔۔

ملک عدنان اسی فیکٹری میں پروڈکشن مینیجر ہے ایک مذہبی اسٹیکر ہٹانے پر جب پراینتھا کو سزا دینے کا فیصلہ ہوا تو عدنان نے سمجھانے کی کوشش کی ” نام کے عاشقان "سے کہا کہ وہ غیر مسلم ہے نہیں پڑھ سکا کیا تحریر تھا اسلیے اسٹیکر ہٹاتے وقت خیال نہ رکھا ہم جلد اسے فیکٹری سے نکال دیں گے اور ایف آئی آر بھی درج ہوگی ایسے میں ایک نے نعرہ لگایا لبیک یا رسول اللہ اور ٹھنڈا پڑتا جوش دوبارہ جاگ اُٹھا عدنان نے پریانتھا کو بچا کر فیکٹری کی چھت پر موجود ایک کمرے میں بند کر دیا جب غصےاور جہالت سے بھری عوام چھت پر پہنچی تو انہوں نے پرینتھا کو زبردستی کمرے سے نکالا نیچے چوراہے پر گھسیٹتے لے گئے ہزاروں کا مجمع تھا اور عدنان پرینتھا کو بچانے والا واحد شخص جو اسوقت بنا جان کی پرواہ کیے چالیس منٹ تک ڈھال بن کر خود تشدد سہتا رہا کہتا رہا مت کریں ایسا اس سے فیکٹری میں ہزاروں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے فیکٹری بند ہو جائے گی پاکستان کا نام بدنام ہوگا مگر وہ” نام نہاد عاشقان” نہ اس وقت مسلمان تھے نہ اسلامی ریاست کے باسی۔۔ایک جنونی جتھہ تھا جسکو سوائے” گستاخ” کے اسوقت نہ کچھ دکھائی دے رہا نہ سنائی دے رہا تھا۔

ملک عدنان تن تنہا اس جتھے سے کیا مقابلہ کر پاتا ایک وقت آیا کہ پرینتھا کو مارنے والوں نے اس "دینی فریضے” میں اپنا اپنا حصہ ڈالا جتنا مار سکتے تھے مارا انسانیت کو جس قدر شرمندہ کیا جاسکتا تھا کیا لاش تک جلا ڈالی کپڑے تک اتار دئیے حد یہ کہ جن کا ہاتھ مارنے کے فرض سے رہ گیا وہ موبائل نکال کر”ایمان افروز”مناظر کو فلمند کرتا سیلفیاں لیتا لبیک یارسول اللہ کہتا خود کو "ڈیڑھ مسلمان” سمجھتا رہا پرینتھا مر گیا ایک غیر ملکی مہمان چند ایک فسادیوں کی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گیا مگر ملک عدنان ایک ایسی مثال قائم کر گیا جو اس سے پہلے نہ دیکھی نہ سنی کیونکہ مذہب کے نام پر یہاں غلط کو غلط اور صیح کو صیح کہنے والے کا انجام بھی وہی ہوتا ہے جو اس سے پہلے کئی پرینتھا بھگت چکے۔ ہزاروں لوگوں کے سامنے عدنان کی بہادری اور انسانیت نے ایک امید روشن کی کہ جو مذہب کے نام پر فتنہ فساد برپا کرے اسکے سامنے ڈٹ جاؤ کم از کم ظلم کو ہر ممکن حد تک روکنے کی کوشش تو کرو۔

اور دیکھا جائے تو اسلام کی تعلیمات بھی تو یہی ہیں کہ ظلم پر خاموش رہنے والا بھی ظلم میں شریک مانا جاتا ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے باہمت عدنان کو تمغہ شجاعت دیا جارہا ہے سراہا جارہا ہے عدنان پاکستان کا وہ مثبت چہرہ ہے جو اس مملکت کی اصل پہچان ہے اسلام کے نام پر بننے والی ریاست میں سوائے چند کے ہر ایک عدنان ہے جو نہ ظلم سہتا ہے نہ کسی پر ہونے دیتا ہے مگر توہین مذہب کی دھمکی دے کر ایسے جتھے سبکو دیوار سے لگا دیتے ہی۔ بدقسمتی یہی ہے کہ آٹے میں نمک کے برابر اُن چند جنونیوں کی وجہ سے سات دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی ہم مذہب کے نام پر گندہ کھیل کھیلنے والوں سے چھٹکارا نہ پا سکے۔۔آج پرینتھا کی جان گئی کل کو اسی طرح کا ہجوم کسی اور کو بنا ثبوت کے توہینِ مذہب کی آڑ میں اپنے مفادات کی آگ میں جھونک سکتا ہے کسی بھی انسانی جان پر ظلم وستم کر کے اپنی خار نکالی جا سکتی ہے ماضی میں بھی کئی نامی گرامیوں نے اسلام کے نام پر ریاست اور شہریوں کو نقصان پہنچایا۔سوال یہ ہے کہ ایک خودمختار ریاست میں مذہب کارڈ کا استعمال اتنی آسانی سے کیوں کر کیا جاتا رہا قوانین کی موجودگی میں کوئی کیسے قانون کو دین کے نام پر بلیک میل کر کے بے توقیر کرتا رہا ریاست چند ایک لوگوں کے ہاتھوں کیوں یرغمال بنی رہی؟

اس واقعے نے ہر باشعور ذہن کو جھنجھوڑ ڈالا ہمارا پیارا وطن جسکی بنیاد ہی اسلامی قدروں، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور تمام بسنے والوں کے ساتھ برابری کے سلوک پہ رکھی گئی آج یہ ملک دشمن عناصر اسے خدانخواستہ تباہ کرنے پہ تُلے ہیں۔انہی کیوجہ سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے جبکہ ایسے واقعات معاشرے میں عدم برداشت کو بھی ہوا دیتے ہیں ہمیں معاشرے میں سکون اور امن کے لیے عدنان جیسے کردار کی سخت ضرورت ہے جبکہ وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت عدنان کو سراہنے کے ساتھ ساتھ پرینتھا کے قاتلوں کو بھی قرار واقعی سزا دے تاکہ ایسے واقعات دوبارہ رونما ہو کر روشن پاکستان کے چہرے پہ سیاہ دھبہ نہ ثابت ہوں۔

Leave a reply