کامیڈین محمود کے والد، کریکٹرایکٹر اور ڈانسر ممتاز علی کی 46 ویں برسی آج

0
39

[advanced_iframe src=”//www.tinywebgallery.com/blog/advanced-iframe” width=”100%” height=”600″]بھارتی فلمی صنعت کے ماضی کے کریکٹرایکٹر اور ڈانسر ممتاز علی کی 46ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔بھارتی فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں اداکارہ کا ڈانس کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا اس لئے تقریباً ہر فلم میں ایک مرد ڈانسر کا کردار ضرورشامل کیا جاتا تھا۔یہ سلسلہ تقسیم ہند کے بعد بھی جاری رہا۔ ممتاز علی کا شمار بھی ایسے ہی ڈانسروں میں ہوتا تھا جو فلم میں مزاحیہ گانوں پر ڈانس کرتے تھے۔ ممتاز علی 15مارچ1905کو مدراس میں پیدا ہوئے ابھی ان کی عمر 7سال ہی تھی کہ ایک حادثے میں ان کی ماں اور باپ دونوں انتقال کر گئے جس کے بعدوہ اور ان کی بہن 9سالہ کریم النساء بالکل اکیلے رہ گئے۔ ان کے پاس کھانے پینے کے لئے بھی پیسے نہ تھے۔دونوں بمبئی کی گلیوں میں پھرتے رہتے۔ اور اگر کچھ کھانے کو مل جاتا تو کھا لیتے ورنہ بھوکے ہی سو جاتے۔ انہیں گانا گانے کا بھی شوق تھا۔ اسی شوق کو پورا کرنے کے عوض انہیں لوگ کچھ پیسے اور کھانا وغیرہ دے دیتے تھے۔ بمبئی کی گلیوں میں ان کی ملاقات معروف برطانوی صحافی اورانڈین سنیما کے مقبول اخبار بمبئے کرونیکل کے پبلشربینجمن جی ہورنیمین سے ہوئی جو انہیں اپنے گھر لے گئے اور انہیں اپنا ملازم رکھ لیا۔ اس کے ساتھ وہ ان کی مالی مدد بھی کیا کرتے تھے۔1933میں بینجمن نے انہیں اپنے ایک دوست ہیمانشو رائے سے ملوایا جو اس وقت اپنی نئی فلم کمپنی بمبئے ٹاکیز بنا رہے تھے۔انہوں نے ممتاز علی کو نوکری دے دی اور یوں ممتاز علی بمبئے ٹاکیز کے پہلے ملازمیں میں شمار ہوئے۔ ممتاز بمبئے ٹاکیز کے بینر تلے بننے والی پہلی فلم جوانی کی ہوا کی پروڈکشن ٹیم کا حصہ بن گئے۔ ہیمانشو رائے انہیں اپنی فلموں میں معولی سا رول دے دیتے تھے۔ ان کی پہلی فلم 1937میں بننے والی فلم جنم بھومی تھی۔ پریم کہانی، ساوتری، جیون پربھات، وچن، نرملا وغیرہ ان کی ابتدائی فلمیں تھیں۔1941میں انہوں نے فلم جھولا میں ایک گانا گایا اور اس کے ساتھ ڈانس بھی کیا۔ گانے کے بول تھے ‘میں تو دلی سے دلہن لایا رے’یہ گانا اس وقت برصغیر کی ہر شادی بیاہ میں بجایا جانے لگا۔اس دوران ہیمانشو رائے کے بھائیوں نے بمبئے ٹاکیز کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد 1941 میں ممتاز علی نے بمبئے ٹاکیز کو خیرباد کہہ دیا۔ ممتاز علی نے اپنی فلمی زندگی میں 28فلموں میں کام کیا جن میں ہماری بات، بسنت، شہنائی، کھڑکی، سنگیتا، نرالا،قافلہ وغیرہ بے حد مشہور ہوئیں۔ان کی آخری فلم 1974میں بننے والی فلم کنوارہ باپ تھی۔ ممتاز علی6مئی 1974کو69سال کی عمر میں بمبئی میں انتقال کر گئے.ممتاز علی نے اکتوبر 1929میں لطیف النساء سے شادی کی۔ ان کے ہاں آٹھ بچے پیدا ہوئے جن کے نام حسینی، محمود، خیرالنساء، عثمان، ملک النساء، زبیدہ، شوکت اور انور تھے۔ ان کا دوسرا بڑا بیٹا محمود بھارتی فلمی صنعت کا سب سے کامیاب کامیڈین بنا۔ محمود نے اپنی فنی زندگی کا آغاز 1943 کی شہرہ آفاق فلم قسمت سے کیا۔محمود نے اداکاہ مینا کماری کی بہن ماہ لقا سے شادی کی۔ ممتاز کی ایک بیٹی ملک النساء 1950کی دہائی کی معروف ڈانسر بنی۔ ان کا فلمی نام مینو ممتاز تھا۔

Leave a reply