مقصدیت — عمر یوسف

لائبریری میں ادھار کتاب لیتے ہوئے ایک دوست کو دوسرے نے کہا کہ چھوڑو یار ہم یہ کتاب خرید ہی لیتے ہیں ۔

پہلے دوست نے جواب دیا کہ اگرچہ میں خریدنے کی قوت رکھتا ہوں لیکن پھر بھی نہیں خریدوں گا ۔

لائبریری سے ادھار لی ہوئی کتاب میرے اندر یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ کتاب میری ملکیت نہیں اور یہ میرے پاس محدود وقت کے لیے ہے ۔ یہ احساس مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں کتاب سے جلد اور زیادہ فائدہ اٹھا لوں ۔ جبکہ کتاب کی ملکیت کا احساس اس سے فائدہ اٹھانے کو ملتوی کرتا رہتا ہے یہ سوچ کر کہ چیز تو اپنی ہے بعد میں پڑھ لیں گے اور یوں انسان فائدہ اٹھانے سے محروم رہتا یے ۔

یہی صورت حال وسیع تناظر میں انسان کی زندگانی پر منطبق ہوتی ہے ۔

جب انسان یہ سوچتا ہے کہ یہ زندگی میری نہیں ہے اور میرے پاس وقت بھی محدود ہے تو وہ اس سے جلد اور زیادہ فائدہ اٹھاتا یے ۔

لیکن لاشعوری طور پر لوگوں کی اکثریت اس احساس میں مبتلاء ہوتی ہے کہ زندگی میری ملکیت ہے بعد میں عمل کرلیں گے ۔

لیکن وہ اسی غفلت میں مبتلاء ہوتا ہے کہ اچانک موت کا پنجہ اس کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اس کے پاس خسارے کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔

عقیدہ آخرت نہ صرف انسان کو مقصدیت عطا کرتا ہے بلکہ وہ اس کی آخرت کے ساتھ ساتھ اس کی دنیا کو بھی بہتر اور خوشحال کردیتا ہے ۔

Comments are closed.