معروف فیشن برانڈ کی مالک ماریہ بی کے شوہر کو کرونا پھیلانے کے الزام میں پولیس نے کیا گرفتار، ٹیسٹ رپورٹ کیا آئی ؟
معروف فیشن برانڈ کی مالک ماریہ بی کے شوہر کو کرونا پھیلانے کے الزام میں پولیس نے کیا گرفتار، ٹیسٹ رپورٹ کیا آئی ؟
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معروف فیشن ڈیزائنر ماریہ بی کے شوہر کو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے الزام مین گرفتار کیا ہوا ہے تا ہم اب ان کے شوہر کا کرونا کا ٹیسٹ منفی آیا ہے، ان میں کرونا کی تشخیص نہیں ہو سکی
ماریہ بی کے ملازم کی طبعیت خراب ہوئی تو اس کو آئسولیٹ کیا، اس کے ٹیسٹ کروائے لیکن بعد میںً ملازم فرار ہو گیا،اور جیسے ہی ٹیسٹ کے نتائج آئے تو پولیس نے رات کو چھاپہ مارا اور گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی، سب گھر والوں کے ٹیسٹ کئے گئے تا ہم اب ماریہ بی کے شوہر کی ٹیسٹ رپورٹ منفی آئی ہے باقی گھر والوں کے ٹیسٹ کی رپورٹ بھی آجائے گی.
ماریہ بی پاکستان کے فیشن کے چند بہترین برانڈز میں ہے، ان کے ملازمین کرونا کے حوالہ سے احتیاطی تدابیر کے ساتھ کام کر رہے تھے، لاک ڈاؤن سے پہلے بھی صحت کے اصولوں کا خیال رکھا جا رہا تھا، پولیس اپنی نااہلی چھپانے کے لئے شہر کے معززین کو ہراساں کرتی رہی.
خبر رساں ادارے کے مطابق سوئی گیس کالونی لاہور کے رہائشی طاہر سعید معروف برانڈ ماریہ بی کے مالک ہیں اور انہوں نے عمر فاروق نام کا ایک باورچی رکھا ہوا تھا. طاہر سعید نے عمر فاروق کی طبیعت مسلسل خراب رہنے پر مقامی نجی لیبارٹری سے اس کا کورونا کا ٹیسٹ کرایا جو مثبت آیا.
پولیس کے مطابق طاہر سعید نے متعلقہ حکام کو آگاہ کرنے کی بجائے مجرمانہ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمر فاروق کو اس کے آبائی شہر وہاڑی کی بس میں بٹھا دیا. عمر فاروق دو بسیں بدل کر وہاڑی پہنچا. کورونا وائرس کا مریض ہوتے ہوئے بھی عمر فاروق بغیر حفاظتی اقدامات کئے عام مسافروں کے ساتھ سفر کر کہ گھر پہنچا اور اہلخانہ سے بھی ملا. نجی لیبارٹری کی طرف سے معمول کے مطابق جب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو عمر فاروق کا کورونا کا ٹیسٹ مثبت آنے کی رپورٹ دی تو حکام حرکت میں آئے. لیبارٹری سے دستیاب ڈیٹا کے پیش نظر حکام نے طاہر سعید سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ عمر فاروق اپنے گاؤں چلا گیا ہے.
محکمہ صحت کے حکام نے پولیس کی مدد سے عمر فاروق کو اپنی تحویل میں لے کر آئسولیشن وارڈ میں منتقل کر دیا ہے جبکہ تفتیش کے بعد ماریہ بی کے مالک طاہر سعید کو حراست میں لے لیا ہے. ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے ملازم کی مہلک بیماری چھپائی, اس کو عام شہریوں تک جانے دیا اور باقی عوام کی زندگی خطرے میں ڈالی۔