برصغیر کی معروف ادیبہ،شاعرہ اور دانشور فہمیدہ ریاض کا یوم وفات

برصغیر کی معروف ادیبہ،شاعرہ اور دانشور فہمیدہ ریاض کو نیا سے رخصت ہوئے 4 سال بیت گئے-

برصغیر کی معروف ادیبہ،شاعرہ اور دانشور فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1945 کو ہندوستان کے شہر میرٹھ کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد صاحب کا نام ریاض الدین اور والدہ محترمہ کا نام حسنہ بیگم ہے۔

تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان ہجرت کر کے حیدر آباد سندھ میں آباد ہوا۔ فہمیدہ نے ابتدائی تعلیم حیدر آباد سے اور ایم اے سندھ یونیورسٹی جام شورو سے کیا۔ دوران تعلیم وہ ڈی ایس ایف کے پلیٹ فارم سے ایوب خان کے خلاف تحریک میں سرگرم عمل رہیں۔1967 میں شادی کے بعد وہ لندن منتقل ہو گئیں۔ وہاں سے انہوں نے تیکنیکی تعلیم میں ڈپلومہ کیا۔ اس دوران بی بی سی ریڈیو کی اردو سروس میں بھی کام کیا۔

1973 میں لندن سے وطن واپس آئیں۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے دور میں انہوں نے ایک اردو ادبی رسالہ” آواز” جاری کیا جس میں وہ حکومت کی غیر جمہوری پالیسیوں پر تنقیدی مضامین لکھتی رہیں جس پر ان کے خلاف متعدد مقدمات درج کر لیے گئے اور ان کے رسالے کو بند کر دیا گیا تھا جس کی بناء پر وہ پاکستان سے جلاوطنی اختیار کر کے ہندوستان چلی گئیں ۔

1981 سے 1987 تک ہندوستان میں قیام پذیر رہیں۔اس دوران وہ جامعہ ملیہ۔اسلامیہ دہلی سے وابستہ رہیں ۔ وہاں ان کا ایک شعری مجموعہ” کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے” شائع کیا گیا جبکہ اس سے قبل پاکستان میں ان کے دو شعری مجموعے ” بدن "دریدہ اور ایک دوسرا شعری مجموعہ شائع ہو چکا تھا ۔ جنرل ضیا کی وفات کے بعد وہ اپنی جلاوطنی ختم کر کے اپنے وطن واپس آ گئیں۔

محترمہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں انہیں نیشنل بک کونسل کی چیئر پرسن مقرر کیا گیا تھا ۔ فہمیدہ ریاض نے جمہوریت کی بحالی، انسانی حقوق کے تحفظ اور بلوچستان کی محرومی کے حوالے سے بھرپور جدوجہد کی۔ فہمیدہ ریاض کی نصف درجن سے زائد کتابیں شائع ہوئیں جن میں "حلقہ مری زنجیر کا” ہم رکاب، ادھورا آدمی، میں مورت ہوں ، اپنا جرم ثابت ہے، اور ” آدمی کی زندگی” شامل ہیں ۔

فہمیدہ نے دو شادیاں کی تھیں پہلی شوہر سے ایک بیٹی اور دوسرے شوہر سے ایک بیٹی اور ایک بیٹا کبیر پیدا ہوا۔ کبیر 2007 میں امریکہ میں ایک حادثے میں فوت ہو گئے جس کا فہمیدہ کو شدید صدمہ ہوا ۔ 21 نومبر 2018 میں فہمیدہ ریاض کا انتقال ہوا۔

فہمیدہ ریاض کی شاعری سے انتخاب

اب سو جاؤ

اور اپنے ہاتھوں کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
تم چاند سے ماتھے والے ہو
اور اچھی قسمت رکھتے ہو
بچے کی سو بھولی صورت
اب تک ضد کرنے کی عادت
کچھ کھوئی کھوئی سی یادیں
کچھ سینے میں چھبھتی یادیں
اب انہیں بھلا دو سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
سو جاؤ تم شہزادے ہو
اور کتنے ڈھیروں پیارے ہو
اچھا تو کوئی اور بھی تھی
اچھا پھر بات کہاں نکلی
کچھ اور بھی یادیں بچپن کی
کچھ اپنے گھر کے آنگن کی
سب بتلا دو پھر سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
یہ ٹھنڈی سانس ہواؤں کی
یہ جھلمل کرتی خاموشی
یہ ڈھلتی رات ستاروں کی
بیتے نہ کبھی تم سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو

اس گلی کے ہر موڑ پر

اس گلی کے موڑ پر اک عزیز دوست نے
میرے اشک پونچھ کر
آج مجھ سے یہ کہا
یوں نہ دل جلاؤ تم
لوٹ مار کا ہے راج
جل رہا ہے کل سماج
یہ فضول راگنی
مجھ کو مت سناؤ تم
بورژوا سماج ہے
لوٹ مار چوریاں اس کا وصف خاص ہے
اس کو مت بھلاؤ تم
انقلاب آۓ گا
اس سے لو لگاؤ تم
ہو سکے تو آج کل کچھ مال بناؤ تم
کھائی سے نکلنے کی آرزو سے پیشتر
دیکھ لو ذرا جو ہے دوسری طرف ہے گڑھا
آج ہیں جو حکمراں ان سے بڑھ کے خوفناک ان کے سب رقیب ہیں
دندنا رہے ہیں جو لے کے پاتھ میں چھرا
شکر کا مقام ہے
میری مسخ لاش آپ کو کہیں ملی نہیں
اک گلی کے موڑ پر
میں نے پوچھا واقعی
سن کے مسکرا دیا کتنی دیر ہو گئی
لیجیۓ میں اب چلا اس کے بعد اب کیا ہوا
کھڑکھڑائیں ہڈیاں
اس گلی کے موڑ سے وہ کہیں چلا گیا

پچھتاوا

خداۓ ہر دوجہاں نے جب آدمی کو پہلے پہل سزا دی
بہشت سے جب اسے نکالا
تو اس کو بخشا گیا یہ ساتھی
یہ ایسا ساتھی ہے جو ہمیشہ ہی آدمی کے قریں رہا ہے
تمام ادوار چھان ڈالو
روایتوں میں حکایتوں میں
ازل سے تاریخ کہہ رہی ہے
کہ آدمی کی جبیں ہمیشہ ندامتوں سے عرق رہی ہے
وہ وقت جب سے کہ آدمی نے
خدا کی جنت میں شجر ممنوعہ چکھ لیا
اور
سرکشی کی
تبھی سے اس پھل کا یہ کسیلا ذائقہ
آدمی کے کام و دہن میں ہر پھر کے آ رہا ہے
مگر ندامت کے تلخ سے ذائقے سے پہلے گناہ کی بے پناہ لذت

تلاش و ترسیل : آغا نیاز مگسی

Comments are closed.