زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے، انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
برج نارائن چکبست 19 جنوری 1882 کو فیض آباد میں پیدا ہوئے ۔ اصل نام پنڈت برج نارائن چکبست تھا لکھنؤ میں تعلیم حاصل کی. 1908ء میں قانون کا امتحان پاس کرکے وکالت کرنے لگے۔
9 برس کی عمر سے شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ کسی استاد کو کلام دکھایا نہ کوئی تخلص رکھا. چکبست اُن کی گوت تھی، کہیں کہیں اس کا استعمال کیا ہے۔ غالب ؔ، انیسؔ اور آتش ؔسے متاثر تھے۔ شاعری کی ابتداء غزل سے کی۔ بعد میں قومی نظمیں لکھنے لگے۔ایک رسالہ ’ستارۂ صبح‘ بھی جاری کیا تھا۔ چکبست کا مجموعہ کلام ‘‘صبح وطن ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
12 فروری1926ء کو ایک مقدمے کی پیروی کیلئے بریلی گئے. لکھنؤ واپسی آنے کیلئے بریلی ریلوے سٹیشن پر فالج کا حملہ ہوا اور چند ہی گھنٹوں بعد سٹیشن پر ہی انتقال ہوگیا۔
ان کے کچھ اور اشعار :
دردِ دل، پاسِ وفا، جذبۂ ایماں ہونا
آدمیّت ہے یہی اور یہی انساں ہونا
ﺍﺱ ﮐﻮ ﻧﺎﻗﺪﺭﯼٔ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﺎ ﺻﻠﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﻢ ﺗﻮ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﮐﯿﺎ
دنیا سے لے چلا ہے جو تو حسرتوں کا بوجھ
کافی نہیں ہے سر پہ گناہوں کا بار کیا
چھٹکی ہوئی ہے گورغریباں پہ چاندنی
ہے بیکسوں کو فکر چراغ مزار کیا
سر میں سودا نہ رہا پاؤں میں بیڑی نہ رہی
میری تقدیر میں تھا بے سر و ساماں ہونا
ہے مرا ضبطِ جنوں، جوشِ جنوں سے بڑھ کر
تنگ ہے میرے لیے چاک گریباں ہونا
ہم اسیروں کی دعا ہے کہ چمن سے اک دن
دیکھتے خانہ صیّاد کا ویراں ہونا
ﺍﮔﺮ ﺩﺭﺩ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺍﻧﺴﺎﮞ ﺁﺷﻨﺎ ﮨﻮﺗﺎ
ﻧﮧ ﮐﭽﮫ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻏﻢ ﮨﻮﺗﺎ ﻧﮧ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﺰﺍ ﮨﻮﺗﺎ