اوچ شریف،باغی ٹی وی ( نامہ نگار ، حبیب خان) شادیوں کا سیزن شروع ہونے سے غریب طبقہ کی گھریلو اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا جس سے وہ شدید ذہنی اذیت میں مبتلا جبکہ ”سیزن کمانے“ کے لئے شہر بھر کے دکانداروں، شادی ہالوں، ہوٹلوں کے مالکان باورچیوں، جیولرز ، فیشن ڈیزائنروں اور بیوٹیشنز نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ سونا، لہنگے، کامدار ملبوسات و دیگر لوازمات کی قیمتوں میں چار گنا اضافہ ہونے غریب طبقہ پریشان ہیں کہ بارات کے لئے کھانے کا بندوبست کریں، جیولری خریدیں، جہیاز کا بندوبست کریں یا دولہا کے عزیز و اقارب کو تحائف دے کر رخصت کریں۔ دلہن کا عروسی جوڑا جو پہلے 10 سے 15 ہزار روپے میں ملتا تھا اب 40,50 ہزار میں مل رہا ہے جبکہ فرنیچر، الیکٹرونکس کا سامان اور کراکری سمیت ہر چیز کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ مہنگائی کے مقابلے کے لئے ایک طرف جہاں متوسط طبقے کی خواتین میں کرائے پر ملبوسات اور جیولری کے حصول کا رجحان مقبول ہو رہا ہے تو دوسری طرف اس خیال سے کہ ”شادیاں کون سا روز روز ہوتی ہیں؟“ زندگی بھر کے ارمان نکالنے، دوسری خواتین پر سبقت لے جانے، خاندان کی خواتین یا سہیلیوں میں اپنی سماجی و معاشی حیثیت کی دھاک بٹھانے کی خاطر شادی کی تاریخ مقرر کرنے کی تقریب سے لے کر مکلاوے تک ”بھاری قرضوں یا عمر بھر کی جمع پونجی کے عوض“ خوشیاں خریدنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں تاکہ مہندی کے دو فنکشنز، مایوں، نکاح، بارات، ولیمہ و دیگر تقریبات اور رسومات کو یادگار بنایا جا سکے۔ شدید مہنگائی کے باوجود آج کل جنوبی پنجاب کے شہر اوچ شریف میں روزانہ شادیوں کی شاپنگ کے سلسلے میں خواتین کی بڑی تعداد لاکھوں روپے خریداریوں میں مصروف ہیں جبکہ مہندی پر پرتکلف کھانے چکن روسٹ، بریانی، مٹن قورمہ، بٹیرے، بار بی کیو، چکن کڑاہی، حلوہ جات، لب شیریں و دیگر پیش کر کے ون ڈش کی کمی پوری کرنے کی پلاننگ کر رہی ہیں۔ پاکستان کی 65 فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اور رشتے طے ہو جانے کے باوجود غریب لڑکیاں ہی نہیں غریب لڑکے بھی تاخیر سے شادی پر مجبور ہیں مگر دوسری جانب اپر مڈل کلاس میں دلہن کے صرف ایک روز کے لہنگے برائیڈل میک اپ، گولڈ کی جیولری، میچنگ پاو¿چ، شوز و دیگر لوازمات سمیت دولہا دلہن کے فوٹو سیشن کے لئے 70 ہزار سے 150 لاکھ روپے تک خرچ کئے جا رہے ہیں گویا اس طبقے کی دلہن کے صرف ایک دن کے میک اپ اور عروسی پہناووں پر اٹھنے والے اخراجات کے برابر رقم میں غریب کی بیٹی کی مکمل شادی ہو سکتی ہے۔ گزشتہ روز نمائندہ باغی ٹی وی سے گفتگو میں عزیز،عامر نے کہا کہ اکثر لوگ شادیوں کی پرتکلف تقریبات کے کئی کئی روز تک جاری رہنے کی روایت کو ناپسندیدہ اور معیشت پر بوجھ قرار دیتے ہیں مگر نمودونمائش کی خاطر بھاری قرضوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اویس اور محمد عمران نے کہا کہ لوئر مڈل کلاس کی قوت خرید کے شدید متاثر ہونے کے باوجود ان کے لئے عزیز واقارب کی شادیوں میں شرکت بھی خواب بن کر رہ گئی ۔ قیصر اورشمس خان نے کہا کہ بے شک مسجد میں جا کر شادی نہ کریں مگر قرض لے کر خود کو پریشان کرنے کی بجائے اپنی بساط کے مطابق خرچ کریں

Shares: