تجزیہ :شہزاد قریشی
قومی سیاسی احوال کا اجمالی جائزہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز اپنے پرجوش سیاسی بیانیے کے اظہار اور تشریح کے باب میں انتہائی متحرک ہوچکی ہیں۔ راولپنڈی کے جلسہ میں اور ایک نجی ٹی وی کے ساتھ انٹرویو کے دوران اپنے مذکورہ سیاسی بیانئے کے کئی اہم پہلو نہایت حقیقت پسندی اور اعتماد کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کئے۔ ان میں سب سے فکر انگیز اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ مریم نے نظام عدل سے یہ تقاضا یا مطالبہ کیا ہے کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اور مختلف مراحل پر نواز شریف کے خلاف جو فیصلے ہوئے وہ انصاف پر مبنی نہیں تھے۔ مریم نواز نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ اہم اور فکر طلب ہیں۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی کیا جاتا رہا یعنی یہ اصرار کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سیاسی مدبر بھٹو کو عدالت کی طرف دی گئی سزائے موت ایک عدالتی قتل تھا۔ کچھ ایسا ہی موقف (ن) لیگ کی طرف سے کیا جارہا ہے لیکن ایسے میں یہ بنیادی حقیقت کسی حد تک نظر انداز کی جارہی ہے کہ بھٹو کو دی گئی سزائے موت کا سبب ان کی سیاسی سوچ یا کردار نہیں تھا بلکہ ان پر انسانی قتل کے جرم میں ملوث ہونے کے باعث مذکورہ سزا سنائی گئی تاہم بعد میں اسے عدالتی قتل قرار دیا گیا۔ اس کے مقابلے میں نواز شریف کا جرم قانونی یا اخلاقی نہیں تھا بلکہ اگر ایسا تھا تو اس کی نوعیت اور پس منظر سیاسی تھا اور ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ نواز شریف 2019 میں جب وطن عزیز سے علاج کی غرض سے برطانیہ روانہ ہوئے تو انہوں نے اس سفر کی قانونی اجازت حاصل کی تھی اس باب میں انہوں نے عدلیہ سمیت کسی ریاستی ادارے کے احکامات اور ہدایات کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ مذکورہ اجازت کا اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو بخوبی علم تھا۔ مریم نواز کے سیاسی بیانیے کو اپنی معنویت اور اہمیت کے اعتبار سے بجا طور پر جرات مندانہ بیانیہ قرار دیا جارہا ہے۔ سیاسی پنڈت یہ محسوس کررہے ہیں آنے والے دنوں میں یہ بیانیہ نہ صرف مسلم لیگ (ن) کی سیاسی حکمت عملی میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ یہ کہنے اور سمجھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اس بیانیہ سے نواز شریف کی وطن واپسی کا راستہ ہموار ہونے اور کرنے میں بھی معاونت میسر آئے گی۔
Shares: