پنجاب کی سیاست میں آجکل جو ہلچل ہے وہ کسی سے چھپی نہیں، وزیر اعلٰی پنجاب مریم نواز شریف کے اقدامات نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ کیا واقعی صوبہ پنجاب ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے یا یہ بھی وہی روایتی دعوے ہوں گے جو ہر حکومت کے آغاز میں سننے کو ملتے ہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ مریم نواز کے ناقدین بھی اب یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ صوبے میں پالیسی سازی کی رفتار تیز ہوئی ہے۔ چاہے معاملہ صحت کا ہو، صفائی کا ہو، تعلیم کا ہو، جدید ٹریفک نظام کا ہو یا سیف سٹی کا ہو یہ شفاف ترقیاتی منصوبوں کے فیصلے کم از کم ہوتے تو نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پالیسی سازی کبھی مسلہ رہی ہی نہیں۔ ہمارے یہاں مسائل ہمیشہ عملدرآمد پر گرتے ہیں اور یہی وہ نقطہ ہے جو اس پورے معاملے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ مریم نواز نے میرٹ، شفافیت اور زیرو ٹارلنس جیسے نعرے لگا کر پنجاب کے انتظامی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مگر یہ ڈھانچہ کوئی تختی نہیں جو بدل دیا جائے، یہ درجنوں برس کے اعداد، مفادات، رویوں اور ساخت کا مرکب ہے، اسے بدلنے کے لیے حکم سے زیادہ حوصلہ اور ادارہ جاتی دباؤ چاہیے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بیوروکریسی ہر حکومت کا اصل ستون ہوتی ہے، سیاست دان فیصلہ کرتے ہیں، لیکن ان فیصلوں کی روح بیوروکریسی ہی میں پھونکی جاتی ہے۔ اگر افسران میں وہی پرانی سست روی، وہی فائلوں کے گِرد اور وہی کل دیکھ لیں گے والا انداز رہا تو تبدیلی کا خواب حقیقت کا رخ نہ دیکھ سکے گا۔ مریم نواز نے میرٹ کی بات کی ہے، بہت اچھی بات ہے، لیکن میرٹ پر ایسا افسر بھی چاہیے جو صرف قابلیت نہیں رکھتا بلکہ جرآت بھی رکھتا ہو، جو سیاسی دباؤ، مقامی طاقتوروں کے اثرات اور اندرونی مزاحمت کو خاطر میں نہ لائے۔ پنجاب پولیس کا ذکر آتے ہی عوام کے ذہن میں تھانہ کلچر ابھرتا ہے وزیر اعلی نے ٹیکنالوجی، جدید ٹریفک سسٹم اور رول آف لاء کی بات کی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پنجاب پولیس اس ظاہری تبدیلی کے لیے تیار ہے۔ اصلاحات کا سب سے بڑا امتحان پولیس میں ہی ہوتا ہے کیونکہ پولیس وہ دروازہ ہے جہاں عوام روزانہ ریاست سے ملتے ہیں۔
اگر تھانے وہی پرانے خوف اور سفارش کے مرکز رہے تو اوپر سے آیا ہوا انقلاب صرف سوشل میڈیا کی حد تک محدود رہ جائے گا۔ وزیر اعلی پنجاب لاھور میں بیٹھ کر بہترین منصوبہ بنا سکتی ہیں، مگر لاھور سی سی پی او آفس سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع میں اس پر عمل وہی ضلعی افسران کرے گا جو دل سے کام کرے گا یا رسمی خاکوں سے کام چلائے گا۔ کامیاب حکومتیں وہی ہوتی ہیں جو نچلی سطح کے افسران کو حوصلہ، اختیار اور جوابدہی تینوں چیزیں ایک ساتھ دیتی ہیں۔ اگر پنجاب میں واقعی تبدیلی لانی ہے تو فارمولا بہت سادہ ہے۔ اچھے افسر مضبوط نگرانی، سیاسی مداخلت سے مکمل آزادی، پائیدار اصلاحات اس فارمولا میں اگر ایک چیز بھی کمزور ہو تو پوری عمارت ہل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں اصل معرکہ وزیر اعلی کے دفتر میں نہیں بلکہ پنجاب کے کمشنرز، ڈپٹی کمشنر اور سی پی او، ڈی پی او اور ماتحت عملے کی میز اور پٹواری کے دفتر میں ہے۔ مریم نواز کی نیت، ویژن اور رفتار تعریف کے لائق ہیں مگر پنجاب جیسے بڑے صوبے میں اصلاحات کا سفر بہت لمبا، مشکل اور مزاحمت سے بھرپور ہوتا ہے۔ اگر بیوروکریسی اور پولیس میں وہی انقلابی افسر آ گے، جنکی وزیر اعلی بات کر رہی ہیں، تو یقین کریں کہ چند برسوں میں پنجاب واقعی ہی پاکستان کا سب سے ترقی یافتہ صوبہ بن سکتا ہے۔ لیکن اگر پالیسی سازی اور فائل ورک میں ہی تبدیلی پھنس گئی تو یہ بھی ماضی کی اصلاحاتی داستانوں کی طرح صرف ایک اور کوشش بن کر رہ جائے گی۔ چاہے مریم نواز ہوں یا کوئی اور حکمران پائیدار تبدیلی اس وقت آتی ہے جب نظام بدلتا ہے، لوگ بدلتے ہیں اور ادارے بدلتے ہیں، سیاست دان سمت دکھاتے ہیں لیکن راستہ بیوروکریسی ہی بناتی ہے۔ اب یہ بیورکرویسی پر ہے کہ وہ پنجاب کو واقعی بدلنا چاہتی ہے یا صرف نئے نعروں کیساتھ پرانی روش پر چلتی رہنا چاہتی ہے۔








