تجزیہ،شہزاد قریشی
ملک میں ایک مخلوط حکومت کے لئے سیاسی جماعتیں جوڑ توڑ میں مصروف ہیں تاہم مخلوط حکومت کو ایک بھرپور مزاحمت کرنے والی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا، پیپلز پارٹی آدھا تیتر آدھا بٹیر والی سیاست کررہی ہے،وفاقی کابینہ میں تادم تحریر شمولیت سے انکاری ہے، آئینی عہدے لینے کا اعلان کرچکی ہے اور وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف کو ووٹ بھی دینے کا اعلان کرچکی ہے،مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون ہیں جو وزارت اعلیٰ کیلئے نامزد ہوئی ہیں بطور وزیراعلیٰ پنجاب ان پر بڑی ذمہ داری عائد ہوگی کہ وہ مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں اضافہ کرنے کے لئے پنجاب میں گڈ گورننس کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں،
پنجاب کی اکثریت کا روزانہ سول انتظامیہ اور پولیس سے واسطہ پڑتا ہے اگر صوبے میں میرا ڈی پی او میرا سی پی او میرا ڈپٹی کمشنر‘ کمشنر کے روایتی تبادلے کروانے والے ایم پی اے اور ایم این اے کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ان کی سفارشات پر عمل کریں گی تو پھر پنجاب میں گڈ گورننس پر سوالیہ نشان ہوگا جبکہ مسلم لیگ ن کی مقبولیت بھی نہیں ہوگی، صوبے کے دو افسران چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو فری ہینڈ دیں اور وہ اپنی مرضی کے مطابق پنجاب بھر میں تعیناتیاں کریں اور وہ وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کی مقررہ کردہ ٹیم کو ہر ماہ گڈ گورننس کی رپورٹ دیں،یکے بعد دیگرے پنجاب میں حکومتوں کی ناکامی انہی سفارشی ایم پی اے اور ایم این اے کی بدولت ہوئی، لاکھوں کا نذرانہ دے کر اپنی من پسند کی جگہ تبادلہ کروا کر مسلم لیگ ن اور وزیراعلیٰ کی گڈ گورننس کے لئے ایک سوالیہ نشان ہوں گے، نامزد وزیر اعلی کو صوبے کی سول انتظامیہ اور پولیس افسران کو عوام کی خدمت اور ہر خواص و عام کے لئے دروازے کھلے رکھنے اور فرائض کی کما حقہ ادائیگی کاپابند بنانا ہوگا، قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو وقت کی قدر کرتی ہیں اگر صوبے کے افسران دن گیارہ بجے دفتر پہنچیں گے تو پنجاب میں گڈ گورننس کیسے قائم ہوگی۔