مریم کی سیاست کا سوئچ آف،پیپلز پارٹی کا آخری دھکا،نواز شریف کا یوٹرن، سنئے مبشرلقمان کی زبانی

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ آج کی اس ویڈٰو میں ہم آپ کو بتائیں گے کے مسلم لیگ ن نے بڑے فیصلے کیئے ہیں اور ڈرائیونگ سیٹ بدلنے کا فیصلہ کیا ہے اس پر اب کون بیٹھے گا اور اس کے پیچھے نواز شریف کی کیا سوچ ہے؟

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ دوسرا جہانگیر ترین نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اسے جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس میں کیا حقیقت ہے اور اس پر بھی بات کریں گے کہ عمران خان نے اپنے سب سے با اعتماد ساتھی جس نے وفاق سمیت پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کیا اسے احتساب کی سولی پر کیوں چڑھایا اور اس کا انجام کیا ہو گا۔ اس کا نقصان عمران خان کو ہو گا یا جہانگیر خان ترین کو۔۔جھانسے کی رانی مریم نواز کے باہر جانے کی خبریں اب گردش کرنا شروع ہو گئی ہیں۔ کتنا بڑا اتفاق ہے کہ پی ڈی ایم بننے سے پہلے مریم کے جانے کی باتیں تھی یا اب پی ڈی ایم کے بعد۔ اس کی کیا حقیقت ہے۔ کیا مریم کی سیاست کا سوئچ آف کر دیا گیا ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف لوگ مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت سے سخت پریشان ہیں ، اور ہر روز کسی نہ کسی شہر سے خود کشی کی خبریں آ رہی ہیں تو دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن اپنے کھیل میں مصروف ہیں۔ ہر روز ایک سے ایک ایسی خبر ملتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ پہلے ہم ماضی دفن کر کے بھارت کے ساتھ اگے چلنے کی بات کرتے ہیں اور پھراس معاملے کو ایسا مزاق بناتے ہیں کہ ذاتی اختلافات میں دفن پی ڈی ایم کو بھی بات کرنے کے لیئے کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔بھارت سے تجارت کے معاملے پر جو ہوا ٹھیک ہوا ایسا ہی ہونا چاہیئے لیکن اس سے پہلے جو سب کچھ ہوا وہ کیا تھا کیا عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ دنیا کو یہ تاثر کیوں دیا جا رہا ہے کہ حکومت پاکستان اپنی پالیسیوں پر تذبزب کا شکار ہے۔ کبھی ہاں کبھی ناں۔۔ حکومت کے امیج کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود پی ڈی ایم ایک طرف حکومت پر تیر برسا رہی ہے تو دوسری طرف اپنی صفیں بھی تتر بتر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک طرف رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا اقدام نا قابل معافی ہے تو دوسری طرف بلاول کہتے ہیں کہ اپوزیشن ، اپوزیشن کے خلاف ہی مورچہ سنبھالے بیٹھی ہے۔مریم کی خاموشی یہ بتا رہی ہے کہ مسلم لیگ کی ڈرائیونگ سیٹ بدل چکی ہے اور مفاہمتی سیاست کے لیئے ڈرائیونگ سیٹ پر شہباز شریف آ چکے ہیں، جب تک ان کی ضمانت نہیں ہوتی چیزیں حمزہ شہباز دیکھیں گے اور مریم نواز بیمار ہی رہیں گی۔ یہ میاں نواز شریف اور مریم کی اہم خاصیت ہے کہ ایسے معاملات جس سے عوام پر منفی اثر پڑ سکتا ہے اس معاملے میں جھوٹ اور ڈرامہ کرنے کے ماہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کے خاندان میں کوئی واقعی بیمار ہو جاتا ہے تو بھی لوگ یقین کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ڈاکٹر عدنان کو لندن سے بلانے اور مریم نواز کی بچپن کی بیماریان گنوانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو یقین آ جائے کہ مریم واقعی بیمار ہے۔ اس وقت ن لیگ نے تمام اختلافات کے باوجود پی ڈی ایم کو قائم رکھنے میں اپنی عافیت سمجھی ہے اسی لیئے جوشیلے لیڈر بیک سیٹ پر اور نرم مزاج فرنٹ سیٹ پر آ رہے ہیں۔ حمزہ شہباز کو ان کے والد نے پنجاب میں کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ اور عدم اعتماد سے روک دیا ہے اور انتظار کرنے کا کہا ہے۔ ویسے بھی یہ بات کس کو نہیں پتا کہ بزدار کی کارکردگی جس طرح پنجاب میں تحریک انصاف کی مقبولیت میں کیل ٹھوک رہی ہے اور جس طرح اس کا فائدہ ن لیگ کو ہو رہا ہے، اگلی حکومت حاصل کرنے کے لیئے ن لیگ کے مفاد میں یہی ہے کہ اسے نہ چھیڑا جائے۔ اس سے پنجاب کے ساتھ ساتھ وفاق بھی ن لیگ کے ہاتھ میں آنے کے چانسز ہیں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ کیا اب میاں نواز شریف سے کوئی پوچھے گا کہ اب کیوں خاموشی اختیار کی ہوئی ہے کیا انہوں نے تمام مقاصد حاصل کر لیئے ہیں یا کسی مصلحت کے تحت خاموش ہیں۔ کیا کسی جدوجہد میں مقاصد حاصل کرنے کے لیئے صحیح موقع کی تلاش کرنی پڑتی ہے۔اس وقت میاں صاحب کی اخلاقی پوزیشن کیا ہے۔ جب دل کرے مذاحمتی سیاست اور جب دل کرے مفاہمتی سیاست۔ کیا آپ نے اس ملک، عوام اور جمہوریت کو سرکس سمجھا ہوا ہے۔ اپنی ترقی اوربرے حالات کی خودساختہ جھوٹی کہانیاں سنا سنا کر پورے معاشرے کو مایوسی اور عد برداشت کے اندھیروں میں جھونک دیا گیا ہے۔ سیاسی مداری رنگ رنگ کی بولیاں بولتے ہیں اپنے لیڈروں کی بڑی سے بڑی غلطیوں کا دفاع کرتے ہوئے بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ ان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ پاکستان مین جمہوریت کو دفن کرنے والے شاید یہی لوگ ہیں ۔ چیخیں مار مار کر عوام کو یقین دلواتے ہیں کہ ان کے لیڈروں نے جو کچھ بھی کیا وہ عوامی فلاح وبہبود اور ملکی بہتری کے لئے ہی کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ترقی کے نام پر ریاستی وسائل کا استعمال کبھی بھی ان کی بہتری کے لئے نہیں کیا گیا۔ غریب عوام کی بہتری کے لئے خرچ کی گئی رقم کے پیچھے بھی ان سیاسی رہنمائوں کی ناجائز کمائی میں اضافہ کرنا مقصود ہوتا تھا جنہوں نے ہمیشہ اقتدار کے مزے لئے اور لوٹ کھسوٹ کے بعد چلتے بنے۔
تین دفعہ وزیر اعظم اور دو دفعہ وزیر اعلی بننے کے باوجود بھی اس ملک کی محرومیوں کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھراتے ہیں۔بحرحال یہ ایک لمبی کہانی ہے جو میں آپ کو آہستہ آہستہ، قسطوں میں سناتا رہوں گا تاکہ ان کا جھوٹ اپ کے ذہنوں میں گھر نہ کر پائے۔اس وقت گرما گرم خبر ہے کہ جہانگیر خان ترین نے الزام لگایا ہے کہ منصوبے کے تحت چیزیں لیک کی جاتی ہیں۔ 2 دن بعد کچھ ہونا ہوتا ہے، اسے لیک کر کے میڈیا کو دے دیا جاتا ہے۔ تینوں مقدمات میں چینی کی قیمت بڑھنے کا کوئی تعلق نہیں، 6 سے 10 سال پہلے کی کمپنی کے فیصلوں کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ ان فیصلوں کو چیلنج کرنا ایف آئی اے کا کام نہیں ہے، جان بوجھ کر ایف آئی اے کو کیس دیا گیا ہے۔
منی لانڈرنگ کا ایک لفظ ڈال کر اس کو کریمنل کیس بنا دیا گیا ہے، ہم عدالت میں اپنی صفائی پیش کریں گے۔ہم یہاں عدالت میں پیش ہوگئے ہیں، پوری طرح مقابلہ کریں گے۔جہانگیر ترین کی اس ساری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ حکومتی ادارے ایف ائی اے کو کیس دینے کا مقصد انہیں سیاسی طور پر نقصان پہنچانا ہے اور یہ سب کچھ حکومت کر رہی ہے۔ یہ بات سوچنے کی ہے کہ حکومت ایسا کیوں کر رہی ہے۔
اور وہ بھی اس شخص کے خلاف جس نے عمران خان کی حکومت بنانے کے لیئے خوب جوڑ توڑ کی، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھایا، پنجاب کی حکومت بنوانے اور آزاد امیدوار گھیرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جبکہ عمران خان کی قابینہ میں ابھی بھی ایسے وزیر ہیں جن کا نام چینی اسکینڈل میں آرہا ہے لیکن ان کو اس سے بری الزمہ قرار دے دیا گیا ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مالدار لوگوں پر کرپشن کا الزام لگانا آسان ہوتا ہے اور عمران خان نے اپنی پارٹی کے دو مالداروں علیم خان اور جہانگیر ترین کی اسی لیئے قربانی دے دی کہ یہ Narrative built کیا جا سکے کہ احتساب سب کا ہو گا۔ اور اس حوالے سے عمران خان کو یقین دلوایا گیا ہے کہ ان کے حوالے سے دال میں کچھ نہ کچھ کالا ہے، علیم خان یہ امتحان پاس کر چکے ہیں جبکہ جہانگیر ترین کا جاری ہے۔ جہانگیر ترین کے بیان کے بعد مشیر احتساب اور داخلہ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ مئی 2020 میں آئی تھی، رپورٹ میں منی لانڈرنگ اور دیگر معاملات سامنے آئے، جہانگیر ترین کو کچھ خدشات ہیں کہ شاید ان کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ وفاقی حکومت نے شوگر کمیشن کی رپورٹ پر کارروائی کی منظوری دی تھی ، منسٹری آف انڈسٹریز کو کارروائی تفویض کی گئی۔ احتساب کا کام آسان نہیں اس میں آپ دوست نہیں بناسکتے۔کمیشن کی رپورٹ پر کارروائی کو اسلام آباد، لاہور اور سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا، تینوں جگہوں سے قرار پایا کہ یہ کارروائی قانون کے مطابق ہے
بحرحال اس بات کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا کہ عمران خان کو اپنے سب سے با اعتماد ساتھی کو احتساب کی دلدل میں دھکیلنے کا فائدہ ہوتا ہے یا نقصان۔۔ لیکن میرا یہ خیال ہے کہ شوگر اسکینڈل میں جہانگیر ترین باعزت بری ہو جائیں گے لیکن اس وقت تک میڈیا پر ان کی عزت تاتار ہو چکی ہو گی اور وہ پوری دنیا کے سامنے ایک کرپٹ کے طور پر ذہن نشین ہو چکے ہوں گے۔

Comments are closed.