مصائب اور اسکا مقابلہ .تحریر : ریحانہ بی بی

انسانی زندگی میں خوشی اور غم کا عجیب سنگم ہے, کبھی بہت زیادہ خوشی اور کبھی کوئی مصیبت…
پہلی بات یہ ہے کہ اگر زندگی میں دکھ نہ ہو تو خوشی کا احساس بھی نہیں ہوتا. زندگی اپنی تمام تر خوشیوں اور غموں کے ساتھ, پھول کے ساتھ کانٹے, دھوپ کے ساتھ چھاؤں کا حسین امتزاج ہے. البتہ خوشی کے لمحات غیر محسوس طریقے سے گزر جاتے ہیں.
اس دنیا میں کبھی بھی انسان کو دائمی خوشی حاصل ہے نہ دائمی غم. یہ سلسلہ ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے کوئی اس سے خالی نہیں. پر جب کسی پہ پریشانیوں کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے تو وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ دنیا کی ساری مصیبتیں اسی کو مل رہی ہیں..
ہم میں سے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ان مشکلات سے بددل ہوجاتے ہیں کہ انکی زندگی آ زمائشوں کا مجموعہ بن گئی ہے, وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ انکی قسمت ہی ایسی بنائی گئی ہے…… مگر یاد رکھیں اللہ کے نبی کا ارشاد ہے کہ :
لوگوں میں سب سے زیادہ مصائب اور آ زمائش انبیاء کو پہنچے, پھر نیک و صالح لوگوں کو پھر جو اُن سے زیادہ مشابہت رکھنے والے انکو.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آ زمائش کس کی ہوتی ہے ؟
آ پ نے فرمایا انبیاء کی, پھر صالحین کی کی.
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ جب کسی قوم کو چاہتا ہے اور پسند کرتا ہے تو اسے آ زمائش میں ڈالتا ہے. بندہ جب اس پر راضی رہتا ہے تو اللہ اس سے راضی و خوش ہوجاتا ہے.
اس حدیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ محض بیماری, پریشانی, آزمائش, سزا نہیں بلکہ اُس آ زمائش پر صبر نہ کرنے میں ہے.
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ جب اپنے بندے کے ساتھ خیر کا معاملہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دنیا ہی میں جلدی سزا دے دیتا ہے اور اگر اللہ اپنے بندے کے ساتھ خیر کرنا نہیں چاہتا تو اسکے گناہوں کے باوجود اسکی گرفت نہیں کرتا, پھر قیامت کے دن اسکا بدلہ دیتا ہے.

ہمیں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ ہمیں مصائب و آ زمائش میں کس طرح رہنا ہے , اس سے کس طرح نمٹنا چاہئے.
منفی انداز اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ منفی طرزعمل بندے کو اللہ سے دور کر دیتا ہے.
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو کسی نہ کسی طرح کی آ زمائش میں مبتلا نہ ہو ہاں اسکی نوعیت الگ الگ ضرور ہوتی ہے.
میری اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو مصائب کیوں درپیش ہوتے ہیں اور انکا مقابلہ کیسے کیا جاسکتا ہے.
انسان مصائب کا مقابلہ صبر سے کرے. اس میں کوئی شک نہیں کہ اسکے مصائب نعمتوں سے بدل جائیں اور نعمتوں کی حفاظت شکر ادا کرکے کریں.

Comments are closed.