بڑھکیں نہیں مسائل حل ہونے چاہئے،تجزیہ: شہزاد قریشی

0
46
بڑھکیں نہیں مسائل حل ہونے چاہئے،تجزیہ: شہزاد قریشی

بین الاقوامی سیاست میں تبدیلی کے نقارے بج اٹھے ہیں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی پیداوار کو لے کر کشیدہ تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر اوپیکس ممالک نے امریکی صدر کے انتباہ کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اس وقت امریکہ اور شاہی خاندان کے تعلقات انتہائی سرد مہری کا شکار ہیں۔ خدشہ ہے کہ عالمی دنیا کی معیشت پر اس کے اثرات پڑیں گے۔ سعودی عرب اور امریکہ کے کشیدہ تعلقات کے اثرات عرب ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان، بھارت سمیت اس خطے پر بھی پڑیں گے۔ تاہم عالمی دنیا کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کی خبر رکھنے کے باوجود ہمارے حکمران اور اپوزیشن کے سیاستدان حلال ہے یا حرام ہے کی بحث میں پڑے ہیں،

حکمران عمران کا مارچ کدھر سے آئے گا کدھر جائے گا کی بحث کر رہے ہیں جبکہ عمران خان خفیہ لانگ مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے کیا ہونے جا رہا ہے اس سے بے خبر ہمارے سیاستدانوں نے وطن عزیز کو کن بین الاقوامی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے پس پشت ڈال دیا ہے۔ معذرت کے ساتھ وطن عزیز کے راہزنوں اورر قزاقوں نے اپنی تجوریاں اپنے ذاتی خزانے بھرنے کے لئے ملک اور عوام کے مسائل سے آنکھیں بندکر لی ہیں۔حیرانگی کی بات ملک بحرانوں کا شکار ہے ہمارے سیاستدان اس بحث میں پڑے ہیں نیا آرمی چیف کون ہوگا کون ہونا چاہئے کیسا ہونا چاہئے ؟ ایسے کاموں میں ہاتھ ڈال رہے ہیں جو ان کا کام ہی نہیں ۔

ملک کا آئین کیا کہتا ہے آئین کے مطابق اور سنیارٹی کے مطابق کون نیا آرمی چیف ہوگا اور پھر یہ معاملہ خالصتاً خود آرمی کا ہے کسی سیاسی جماعت کا نہیں اور نہ ہی ہونا چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں وسیع تر ملکی اور قومی مفاد میں مل کر ماضی میں اپنے تئیں غلطیوں کا اعتراف کریں مکمل منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی راہ ہموار کریں۔ کرپشن، بدعنوانی ،ذاتی مفادات ،اقربا پروری کو بالائے طاق رکھ کر قومی خدمت کا تہیہ کریں تمام آئینی ادارے اپنی حدود میں رہ کر قائداعظم کے تصور کردہ اصولوں کے مطابق ملکی نظام کو چلائیں ۔ ملک آج بھی بحرانوں کے گرداب سے نکل سکتا ہے۔ پرانی پنجابی فلموں کی طرح مرکزی حکومت اور اپوزیشن بڑھکیں مارنا چھوڑ دیں۔ ملک اور قوم کے مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ریاست بھی تھک چکی ہے ریاست اب اس طرز سیاست کرنے والوں کی بڑھک بازی کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہے۔

Leave a reply