مساجد میں سفید پوشوں کی عزت نفس کا تحفظ ضروری ہے
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفی بڈانی
مساجد کا تقدس اور ان کا مقام مسلم معاشرے میں انتہائی اہم ہے۔ یہ وہ مقدس جگہیں ہیں جہاں لوگ اللہ کے حضور جھکنے، سکون حاصل کرنے اور روحانیت وعبادات کیلئے جمع ہوتے ہیں۔ یہاں کی فضا کا تقدس اور نمازیوں کی عزت نفس برقرار رکھنا علمائے کرام اور دینی قیادت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ تاہم کچھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو نہ صرف مساجد کی حرمت کو متاثر کرتے ہیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں علمائے کرام کے بارے میں مایوسی بھی پیدا کرتے ہیں۔
حال ہی میں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں ایک نوجوان عالم دین قاری یاسین حیدر نے خطبے کے دوران ایک شخص کو ٹوکا جو ان پر نوٹ نچھاور کر رہا تھا۔ قاری صاحب نے نہایت صاف گوئی سے اس عمل کو غلط قرار دیا اور کہا کہ یہ عمل ناچنے والیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے اور علما پر ایسا کرنا ان کی عزت اور مقام کو گرا دیتا ہے۔ ان کے اس رویے کو عوام کی طرف سے خوب سراہا گیا اور یہ ثابت ہوا کہ علمائے کرام میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کے کردار معاشرے کے لیے مشعل راہ ہیں۔
مگر چند دن بعد ایک اور واقعہ نے عوام کے دلوں میں پیدا ہونے والے اس مثبت احساس کو دھچکا پہنچایا۔ ایک مقامی مسجد میں جمعہ کی نماز کے دوران ایک نوجوان قاری نے خطبہ روک کر نمازیوں سے چندہ مانگنے کا عمل شروع کر دیا۔ انہوں نے نمازیوں کو مالی استطاعت کے مطابق تقسیم کیا اور کہا کہ پہلے وہ لوگ آئیں جو پانچ ہزار روپے دے سکتے ہیں پھر وہ جو ایک ہزار اور پانچ سو روپے دینے والے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف مسجد میں موجود نمازیوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنا بلکہ ان کی عزت نفس کو بھی مجروح کیا۔
یہ رویہ نہایت افسوس ناک ہے کیونکہ مساجد وہ جگہ ہیں جہاں لوگوں کو سکون اور روحانیت کی تلاش ہوتی ہے نہ کہ معاشرتی دبا ئویا مالی تقاضوں کا سامنا۔ نمازی اپنی استطاعت کے مطابق چندہ دینے کو تیار ہوتے ہیں جو ایک خوش آئند روایت ہے لیکن اس طرح کے اعلانات اور دبا ئونمازیوں کو بدظن کر سکتے ہیں اور مسجد کی آبادی پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں صدقہ اور خیرات کو پوشیدہ رکھنے پر زور دیا گیا ہے تاکہ کسی کی عزت نفس کو مجروح نہ کیا جائے۔ ایک حدیث میں سات ایسے افراد کا ذکر ہے جنہیں قیامت کے دن اللہ تعالی اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دے گا اور ان میں ایک وہ شخص بھی ہے جو اس قدر پوشیدہ طریقے سے صدقہ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔
مساجد اور ان کی ضروریات کے لیے چندہ جمع کرنا بلاشبہ ایک اہم عمل ہے، لیکن اس کا طریقہ ایسا ہونا چاہیے جو لوگوں کو سکون دے اور ان کی عزت نفس کا تحفظ کرے۔ مساجد کے لیے چندہ جمع کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ لوگ اپنی خوشی اور استطاعت کے مطابق خود پیش ہوں نہ کہ ان پر مالی دبائو ڈالا جائے یا ان کی استطاعت کو عوام کے سامنے ظاہر کیا جائے۔
علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ مساجد کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی ایسا عمل نہ ہو جو نمازیوں کی دل آزاری کا باعث بنے۔ دینی قیادت کا کردار صرف عبادات کی امامت تک محدود نہیں بلکہ ان کے اعمال اور کردار سے لوگوں کے دلوں میں محبت، احترام، اور اعتماد پیدا ہونا چاہیے۔ مساجد کے تقدس کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ چندہ جمع کرنے کے ایسے طریقے اپنائے جائیں جو نمازیوں کی عزت نفس کو مجروح نہ کریں اور انہیں عبادات کے لیے مساجد میں آنے سے بدظن نہ کریں۔
یہ مسئلہ نہ صرف دینی قیادت بلکہ پوری مسلم کمیونٹی کے لیے غور و فکر کا متقاضی ہے۔ اگر مساجد کے ماحول کو محفوظ اور پر سکون بنایا جائے تو یہ جگہیں لوگوں کے دلوں کو سکون اور روحانی سکون فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ علمائے کرام کے لیے لازم ہے کہ وہ مساجد کے تقدس کو برقرار رکھیں اور نمازیوں کی عزت نفس کا مکمل تحفظ کریں تاکہ لوگوں کا اللہ کے گھر پر اعتماد بحال رہے۔