نئی دہلی: بھارت کی سکھ برادری نے مرکزی حکومت کی جانب سے پاکستان جانے پر عائد پابندی کو مذہبی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہوئے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق نومبر میں بابا گرو نانک دیو جی کا 555واں یوم پیدائش منایا جائے گا جس میں ہزاروں سکھ یاتری پاکستان کے ننکانہ صاحب اور کرتارپور جانے کے خواہشمند تھے۔ تاہم بھارتی وزارت داخلہ نے ایک ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے سکھ یاتریوں کو پاکستان جانے سے روک دیا ہے۔اس فیصلے پر بھارتی پنجاب میں نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ سکھ مذہبی رہنماؤں اور عوامی حلقوں نے بھی سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔

پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت مان نے مرکزی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ دہلی حکومت کو کسی بھی برادری کی مذہبی رسومات اور عقیدت میں رکاوٹ ڈالنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ انہوں نے طنزیہ سوال اٹھایا کہ "جب بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ ہوسکتا ہے تو سکھ یاتری پاکستان کیوں نہیں جا سکتے؟”اسی طرح شرومنی اکالی دل کے صدر اور سابق رکن لوک سبھا سکھبیر سنگھ بادل نے وزیر داخلہ امیت شاہ سے اس فیصلے پر فوری نظرثانی کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ کرتارپور صاحب تک رسائی روکنا سکھ برادری کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔ بادل نے حکومت پر زور دیا کہ کرتارپور راہداری کو فوراً دوبارہ کھولا جائے تاکہ یاتری اپنی عقیدت کے مطابق حاضری دے سکیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معاملہ نہ صرف مذہبی آزادی بلکہ بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بھی سنگین سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ پنجاب کی اپوزیشن جماعتوں نے اس پابندی کو "مذہبی آزادی پر قدغن” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت سکھوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کر رہی ہے۔

Shares: