یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن
ضیاء الحق سرحدی، پشاور
ziaulhaqsarhadi@gmail.com
پاکستان میں مزدوروں کا عالمی دن یکم مئی کو منایا جاتا ہے۔ اس کا فیصلہ 1972ء کو کیا گیا تھا کہ اس دن کو منایا جائے اور عام تعطیل کی جائے۔ مختلف ممالک میں یہ دن دوسری تاریخوں میں بھی منایا جاتا ہے۔ مثلاً امریکہ اور کینیڈا میں ستمبر کے پہلے سوموار کو منایا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی اہمیت اس تحریک میں ہے جس میں آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے تفریح اور آٹھ گھنٹے آرام کی پالیسی اپنانے کی استدعا کی گئی تھی۔ پاکستان میں یکم مئی کو عام تعطیل ہوتی ہے۔ اس دن کی مناسبت سے کوئی خاص نشان نہیں ہے بلکہ پوسٹرز اور دیگر جگہوں پر ہتھوڑے اور درانتی کے نشان کو علامت سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان عالمی مزدوروں کی تنظیم آئی ایل او کا 1947ء سے ممبر ہے جو انصاف اور معاشرتی حقوق کے تحفظ کا پرچار کرتی ہے۔ اس وقت مزدوری کا تعین پندرہ سو روپے یومیہ تک ہے لیکن کام کروانے والے لوگ ہزار، بارہ سو سے اوپر نہیں دیتے۔ ان کی مجبوری اور اس بات کا احساس نہیں کیا جاتا کہ ان کا بھی خاندان ہے اور ضروریاتِ زندگی ہیں جن کو پورا کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ مغرب کی ترقی کا راز یہی ہے کہ انہوں نے ہنر اور کام کی قدر کی ہے۔ یہ نہیں دیکھا کہ کام کرنے والا کون ہے، کہاں رہتا ہے اور اس کی ذاتی حیثیت اور حالات کیسے ہیں۔ ایک مزدور کو بھی ہر وہ سہولت حاصل ہے جو دوسرے لوگوں کو ہے۔
طبقے تو ہر ملک اور معاشرے میں ہوتے ہیں لیکن مواقع فراہم کرنا کہ محنت کرنے والا اور ہنر مند بھی کسی مقام پر پہنچے اور اپنے خاندان کو بنیادی سہولت فراہم کرے، ضروری ہے۔ مزدور کو پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دینے کا حکم ہے۔ اسی سے محنت اور مزدوری کی قدر و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔
پاکستان عالمی ادارہ آئی ایل او کا باقاعدہ ممبر ہے اور ILO کی قراردادوں پر دستخط کرنے کے بعد پابند ہے کہ ملک بھر میں مزدوروں کی فلاح و بہبود، یونین سازی کا حق سمیت مزدوروں کی بہتری کے لیے قانون بنائے جو ILO قوانین کے متصادم نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں وزارت محنت، سوشل سیکیورٹی، محکمہ لیبر کے تحت لیبر کورٹس، پیلنٹ لیبر ٹربیونلز، قومی صنعتی تعلقات کمیشن (NIRC) کے ادارے قائم ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ یہ ادارے بھاری بھر کم مراعات لے کر بھی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے ہیں۔ حالانکہ یکم مئی مزدور ڈے ہوتا ہے، ملک بھر کے سرکاری ادارے، عدلیہ، بیوروکریسی چھٹی مناتی ہے مگر مزدور طبقہ یا درجہ چہارم کے سرکاری ملازمین کو حقیر ترین مخلوق سمجھا جانے لگا ہے۔ ان کے لیے انصاف اور حقوق مشکل تو پہلے بھی تھے مگر اب ناممکن بنا دیے گئے ہیں۔
اس وقت ملک بھر سے 1600 سے زائد صنعتی ادارے بغیر قانونی تقاضے پورے کیے بند کر دیے گئے ہیں، جس سے ملک بھر کے مزدور بے روزگار ہو کر بے یار و مددگار، کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں، جس کی بنا پر ان کے خاندان فاقوں کا شکار ہو گئے ہیں۔
لیبر قوانین آئی آر اے 2010ء کے تحت اگر کوئی صنعتی ادارہ بند کرنے کی معقول وجہ ہو تو پہلے 50 فیصد مزدوروں کو انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ کے تحت حقوق دے کر فارغ کیا جاتا ہے اور کم از کم چھ ماہ کے اندر باقی 50 فیصد مزدوروں کو حقوق دیے جانے کے بعد صنعتی و سرکاری ادارہ بند کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
اس میں محکمہ محنت، پرائیڈنگ آفیسر اور ادارے کی CBA یونین شامل ہوتے ہیں۔ حیرانگی اور دکھ کی بات ہے کہ اس بارے میں اعلیٰ عدلیہ سمیت حکومتی اداروں نے کوئی اقدام کیا ہے، نہ ہی کوئی آواز سینیٹ، قومی یا صوبائی اسمبلیوں سے اٹھائی گئی ہے۔ جبکہ صدرِ مملکت نے حکومت کو انتخابات کے حوالے سے خط لکھا ہے اور عدالتِ عظمیٰ نے بھی انتخابات کے لیے حکم فرما دیا ہے اور کئی پٹیشنیں بھی دائر ہو چکی ہیں۔ ممکن ہے جب یہ تحریر شائع ہو، حالات یکسر بدل چکے ہوں۔
جن صنعتی اداروں کو بند کیا گیا ہے، اس بارے میں محکمہ لیبر اور لیبر عدالتیں بھی خاموش ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کو از خود نوٹس لینا چاہئے تھا۔ ملک بھر سے کسی ٹریڈ یونین یا کسی سیاسی جماعت کے لیبر ونگ نے بھی آواز نہیں اٹھائی۔ سب پر اسرار طور پر خاموش ہیں۔
ٹریڈ یونینز کو ختم کیا جا رہا ہے، حالانکہ مزدوروں کی ویلفیئر اور ٹریڈ یونینز کو تحفظ دینے والے ادارے اور عدالتیں بدستور قائم و دائم ہیں۔ اس کے باوجود مزدوروں کو نہ حقوق ملتے ہیں، نہ ہی مزدوروں اور یونین کے عہدیداروں کی عزتِ نفس کا خیال رکھا جاتا ہے۔
اس بارے میں صدرِ مملکت، وزیرِاعظم اور نہ ہی پی ٹی آئی کی قیادت کروڑوں بے روزگار ہونے والے مزدوروں سے ناانصافی پر آواز اٹھاتے ہیں کیونکہ مزدوروں کو حقوق سے محروم کرنے والوں کی اکثریت خود اسمبلیوں میں بیٹھی ہے۔
اور تو اور، سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں بعض اعلیٰ افسران بھی صرف رجسٹرڈ ٹریڈ یونینز کے خلاف ہی سوچتے ہیں، جبکہ ایسوسی ایشنز جن کا ہڑتال، جلسے، جلوس، تالہ بندی کا حق ہی نہیں، وہ آئے روز ہڑتالیں، تالہ بندیاں، جلسے جلوس کرتے رہتے ہیں، انہیں پوچھا تک نہیں جاتا۔
صنعتی و سرکاری اداروں میں درجہ چہارم کے ملازمین کے ساتھ ہونے والی انتقامی کارروائیوں، افسران اور مالکان کے ستائے مزدور و یونین کے عہدیدار جب مزدوروں کو تحفظ دینے کے لیے قائم اداروں کے پاس جاتے ہیں تو انہیں دھتکارا جاتا ہے اور مزدوروں کو حقیر سمجھتے ہوئے نفرت و حقارت کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی عزتِ نفس مجروح کی جاتی ہے۔
جس کا ثبوت یہ ہے کہ مزدوروں کے حقوق کے لیے قائم اداروں کی ماہانہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو 30 دنوں میں 30 مزدوروں کو بھی حقوق نہیں دلائے گئے ہوں گے۔
حکومت وقت، خصوصاً وزرائے قانون و انسانی حقوق سے پُرزور اپیل ہے کہ مزدوروں کی بہتری کے لیے قومی صنعتی تعلقات کمیشن (NIRC)، لیبر کورٹس، محکمہ لیبر کو جدید تقاضوں کے مطابق فعال کیا جائے۔
اس وقت مزدوروں کے خلاف انتقامی کارروائی عروج پر ہے مگر ظالم و جابر کا ہاتھ روکنے والا کوئی مؤثر ادارہ نہیں ہے۔ سروسز ٹربیونلز کے ممبران کو بھی درجہ چہارم کے ملازمین کے خلاف انتقامی کارروائی پر حکمِ امتناعی اور آرڈر معطل کرنے کا اختیار دیا جائے اور ادارے سے اپیل کو ضروری نہ سمجھا جائے، کیونکہ ادارے کے سینئر آفیسر نے بھی وہی کرنا ہوتا ہے جو نچلے افسر نے کیا ہوتا ہے۔
اس سے کئی ماہ ملازم انتظار کرنے پر مجبور رہتا ہے۔ انصاف میں تاخیر ہی ناانصافی ہے۔ وزارتِ انصاف، انسانی حقوق اس بار نوٹس لے۔ مزدوروں کو انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی ماہانہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تاکہ حقائق سامنے آ سکیں۔
جبکہ یوم مئی جو کہ مزدوروں کا دن ہے، بہتر تو یہ ہوتا کہ اس دن پر ان مزدوروں کی بات کی جاتی جو کہ مزدور ہوتے ہوئے بھی مزدور نہیں۔
حکومت پر دباؤ ڈالا جاتا کہ غیر رسمی مزدور طبقہ کو حکومتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے، کیونکہ مزدوروں کی اتنی بڑی تعداد کو حکومتی ریکارڈ میں لائے بغیر قانون سازی اور حقوق کی باتیں کرنا ہوا میں قلعے بنانے جیسا ہے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ رسمی مزدور طبقہ کے معاملات پر بات نہ کی جائے، ضرور کی جائے مگر غیر رسمی مزدور طبقہ کے مسئلہ کو زیرِ بحث لائے بغیر مزدور حقوق کی بات کرنا ہے تو اس دن کا نام بھی "رسمی یومِ مزدور” رکھ لیا جائے۔
مزدوروں کا عالمی دن منانے کا مقصد یہی ہے کہ ہر سطح پر مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرنے کا تجدیدِ عہد کیا جائے، انہیں ان کا جائز حق دیا جائے اور انہیں بھی دوسروں کی طرح مواقع فراہم کیے جائیں کہ وہ زندگی میں آگے بڑھیں اور ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی میں شامل ہوں۔








