ماضی کا استاد باوقار، آج کا استاد بے توقیر کیوں؟
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
آج حسبِ معمول موبائل پر آئے ہوئے میسیجز دیکھ رہا تھا کہ ایک نہایت ہی قابلِ احترام سکول پرنسپل کی طرف سے ایک مضمون موصول ہوا۔ عنوان تھا: "استاد کی بے عزتی – ایک قوم کی بربادی”۔ مضمون پڑھتے ہی دل بوجھل ہو گیا۔ اس میں لکھا تھا کہ آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ استاد کی عزت صرف تقریروں اور کتابوں تک محدود ہو گئی ہے۔ حقیقت میں استاد کی وہ حیثیت جو کبھی مقدس ہوا کرتی تھی، اب تماشہ بن گئی ہے۔ شاگرد استاد سے علم حاصل کرنے کے بجائے اس پر جملے کستے ہیں، والدین معمولی بات پر استاد کو نیچا دکھاتے ہیں اور معاشرہ استاد کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ اسے عزت کی روٹی دے۔
یہ الفاظ صرف جذباتی نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہی استاد جس نے ہمیں "ا، ب، پ” سے روشناس کرایا، قلم پکڑنا سکھایا، لفظوں کو جملوں میں جوڑنا سکھایا، آج اسی استاد کو کلاس میں بے توقیر کیا جا رہا ہے۔ اس کی بات کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اس کے فیصلوں پر سوال اٹھائے جاتے ہیں اور اس کی شخصیت کو مجروح کیا جاتا ہے تو ایسا کیوں ہورہا ہے؟
اگر ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو اس وقت استاد اور شاگرد کا رشتہ محض تعلیمی نہیں بلکہ روحانی اور اخلاقی بنیادوں پر قائم تھا۔ استاد شاگرد کو اپنی اولاد کی طرح سمجھتا تھا، اس کی تربیت صرف نصاب تک محدود نہیں ہوتی تھی بلکہ کردار سازی، اخلاقیات اور عملی زندگی کے اصولوں تک پھیلی ہوتی تھی۔ استاد کا مقصد صرف نصاب مکمل کرانا نہیں ہوتا تھا بلکہ ایک صالح، باکردار اور ذمہ دار شہری کی تعمیر کرنا ہوتا تھا۔
اس وقت ٹیوشن یا اکیڈمی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ استاد کلاس روم میں ہی اپنے فرائض کی ادائیگی کو اپنا فرض سمجھتے تھے اور پوری کوشش کرتے تھے کہ طالب علم کو کسی اضافی مدد یا فیس دینے کی ضرورت نہ پڑے۔ وہ اپنے پیشے کو نوکری نہیں بلکہ پیغمبری پیشہ سمجھتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ علم کی روشنی پھیلانا اور جہالت کو دور کرنا ہی اس پیشے کا بنیادی مقصد ہے۔ یہی نظریہ انہیں قوم کا معمار بناتا تھا، جن کے ہاتھوں میں ملک و ملت کی آئندہ نسلوں کی تقدیر ہوتی تھی۔
مگر آج تعلیم ایک مقدس فریضہ نہیں رہی بلکہ مکمل طور پر کاروباری صنعت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ استاد جو کبھی علم کا وارث اور مبلغ تھا، آج ایک مافیا کا روپ دھار چکا ہے، جسے طلباء کی روحانی یا اخلاقی تربیت سے کوئی سروکار نہیں رہا۔ اس کی واحد غرض زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا ہے اور اسی مالی لالچ نے اس مقدس پیشے کے وقار کو داؤ پر لگا دیا ہے۔
آج کے استاد نے اپنے بنیادی کردار یعنی کردار سازی سے مکمل غفلت برتنی شروع کر دی ہے۔ جس استاد کو قوم کے نونہالوں کی اعلیٰ ذہنی تربیت کرنی چاہیے تھی، وہ آج انہیں اخلاقی اقدار سے دور کر کے بے راہ روی کی طرف دھکیلنے کا ذمہ دار بن رہا ہے۔ کئی تعلیمی ادارے اور اساتذہ غیر ضروری اور نام نہاد کلچرل پروگرامز کے ذریعے نوجوانوں کے کچے ذہنوں کو شعوری یا لاشعوری طور پر ایک مادر پدر آزاد معاشرے کی طرف دھکیل رہے ہیں، جہاں ذمہ داری اور اخلاق سے زیادہ آزادی کو ترجیح دی جاتی ہے۔
سرکاری تعلیمی اداروں میں استاد کا دوہرا معیار اور بے ایمانی اس زوال کا سب سے عملی ثبوت ہے۔ وہ اساتذہ جو سرکاری اداروں سے باقاعدہ تنخواہیں وصول کرتے ہیں، وہ اپنے فرض سے سراسر غفلت برتتے ہیں۔ حاضری لگانے، چائے پینے اور رسمی کارروائی کے بعد کلاس سے غائب ہو جانا ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ طلباء کو مجبور کیا جا سکے کہ وہ ان ہی اساتذہ کی ذاتی اکیڈمی یا ٹیوشن سنٹر میں مہنگی فیس دے کر پڑھنے آئیں۔ اس صورتحال کا افسوسناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جو طلباء ان کی ٹیوشن میں پڑھنے کی سکت رکھتے ہیں، وہ تو ہر امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ غریب اور مستحق طلباء جو مالی بوجھ نہیں اٹھا سکتے، وہ ناکام ہو جاتے ہیں۔ کامیابی کا یہ معیار علم پر نہیں، بلکہ جیب کتنا بھاری یا موٹی ہے پر منحصر ہو گیا ہے۔
یہ سب کچھ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ استاد کی بے توقیری محض ایک معاشرتی حادثہ نہیں بلکہ خود اس پیشہ کے حاملین کی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ جب آپ کا پیشہ پیغمبری سے نکل کر محض ایک تجارت بن جائے اور آپ کی نیت علم کی ترسیل کے بجائے مالی مفاد ہو جائے تو اس زوال کو روکنا ممکن نہیں رہتا۔ استاد کی عزت میں کمی کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں ڈالی جا سکتی، اس کی بنیاد موجودہ دور کے اساتذہ نے خود رکھی ہے۔
آج جب استاد نے وہ کردار چھوڑ کر صرف پیسہ کمانے کو اپنا مقصد بنا لیا ہے تو یہ زوال اس کی اپنی لائی ہوئی مصیبت ہے، جس کی آبیاری کسی اور نے نہیں بلکہ آج کے اساتذہ نے خود کی ہے۔ اسی لیے جب استاد کی بے عزتی ہوتی ہے تو سب سے پہلے اساتذہ کو اپنے ضمیر میں جھانکنا چاہیے کہ کہیں اس کی وجہ ان کا اپنا عمل تو نہیں ہے۔ عزت واپس حاصل کرنے کے لیے استاد کو دوبارہ اپنے پیشے کو مقدس سمجھنا ہوگا، شاگرد کو اولاد کی طرح تربیت دینا ہوگی اور تعلیم کو تجارت نہیں بلکہ عبادت بنانا ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا آج کا استاد خود کو دوبارہ وہی باوقار مقام دلانے کے لیے تیار ہے؟ کیا وہ اپنے ضمیر سے یہ سوال پوچھنے کی ہمت رکھتا ہے کہ "میں نے اپنے پیشے کے ساتھ کیا کیا؟” کیا وہ اس زوال کو روکنے کے لیے خود کو بدلنے پر آمادہ ہے؟ یا پھر وہ اسی بے توقیری کو اپنی قسمت سمجھ کر خاموشی سے قبول کرتا رہے گا؟
یہ سوال ہر استاد کے ضمیر پر دستک دے رہا ہے۔ کیا وہ اس آواز کو سننے کے لیے تیار ہے؟