اساتذہ سائنس کے مضمون کو کیسے پڑھائیں ؟تحریر:ابوبکر ہشام

0
48

دور جدید میں سائنس نے بہت زیادہ ترقی کر لی ہے اور انسان کو یہ دنیا اور اس کی چیزوں کو سمجھنے میں بہت مدد دی ہے-سائنس کی اہمیت کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سائنس کی ہی مدد سے ہم کائنات کے بے شمار راز جاننے کے قابل ہوئے ہیں جو کہ اس سے پہلے ناممکن تھے – اس کے علم کی مدد سے ہی ہم زمین سے دوسرے سیاروں تک پہنچ پائیں ہیں -سائنس ایک بہت ہی دلچسپ مضمون ہے جو کہ طلباء کے اندر تجسس کو ابھارتا ہے اور نت نئے خیالات کو جنم دیتا ہے- لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں سائنس کو ایک خشک مضمون تصور کیا جاتا ہے اور طلباء کی عدم دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اسے ایک بوریت سے بھر پور مضمون سمجھتے ہیں – اس سلسلے میں استاد کا کرادر بہت اہم ہے – ایک قابل استاد کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کون سے ایسے طریقے ہیں کہ جن سے طلباء میں سائنس کو پڑھنے، سیکھنے ، اور سمجھنے میں دلچسپی پیدا ہو- وہ اسے شوق ، ذوق اور توجہ سے پڑھیں تاکہ یہی طلباء کل کو مستقبل کے معمار بن سکیں -وہ سائنس کے تصورات اور قوانین کو سمجھ کر مستقبل قریب میں نت نئی ایجادات کر سکیں –

طلباء کے اندر سائنس کے مضمون میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے اساتذہ کے لئے چند تجاویز درج ذیل ہیں :
سائنس کے مضمون پر عبور حاصل کریں
سب سے پہلے سائنس کے مضمون کو پڑھانے کے حوالے سے یہ انتہائی ضروری ہے کہ سائنس کے استاد کو اپنے مضمون پر عبور ہو – اور وہ ایک قابل اور تجربے کار استاد ہو جو کہ طلباء کو اچھے طریقے سے سائنس پڑھا نے اور سمجھانے کا فن جانتا ہو- وہ کوئی بھی سائنسی موضوع کو پڑھانے سے پہلے اس کی تیاری کرے، اس کے اوپر سوچ و بچار کرے اور بچوں کو پڑھانے کے حوالے سے لائحہ عمل بنائے – اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک اس مضمون کو پڑھانے والا ہی ماہر مضمون نہیں ہو گا تو وہ طلباء کو سائنس کے مختلف تصورات کیسے سمجھا پائے گا؟ اور ان میں مختلف سائنسی موضوعات بارے دلچسپی کیسے پیدا کر سکے گا؟

کلاس کے ماحول کو دلچسپ بنائیں
کسی بھی استاد کی سب بڑی خاصیت اس کا کلاس کے ماحول کو دلچسپ بنا نا ہے – اس حوالے سے ایک استاد یہ کر سکتا ہے کہ جب بھی وہ کلاس میں داخل ہو تو بجائے اس کے کہ وہ آتے ہی اپنا لیکچر شروع کر دے اسے چاہیئے کہ وہ سب سے پہلے بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے طلباء کو سلام کرے ، مسکراتے ہوئے ان سے ہلکی پھلکی گپ شپ کرے جیسا کہ ان سے پوچھا جائے کہ کل آپ کا دن کیسا رہا ؟ آپ نے کل کیا کیا ؟ اس سے بچے آپ کی طرف متوجہ ہو جائیں گے ، ان پر استاد کا ایک قسم کا خوف ختم ہو جائے گا اور انکی بوریت ختم ہو جائے گی – وہ آپ کو اپنا دوست سمجھیں گے اور جہاں مشکل پریشانی آئے گی وہ آپ سے بات کرنا پسند کریں گے –

سبق پڑھانے سے پہلے بچوں سے مباحثہ کریں
استاد کو چاہیئے کہ وہ کوئی بھی سبق پڑھانے سے پہلے اس کے بارے میں بچوں سے پوچھے اور انکی رائے لے کہ وہ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ، ان کا اس موضوع کے حوالے سے خیال ہے؟ جیسا کہ استاد سائنس کے ایک موضوع ” جاندار اور بے جان چیزوں میں فرق” کو کلاس میں پڑھانے سے پہلے اس کے بارے طلباء سے پوچھیں کہ کیا آپ کھانا کھاتے ہیں ، سوتے ہیں ، بھاگتے ہیں ، چلتے پھرتے ہیں ، سانس لیتے ہیں ؟ یقینا سب طلباء کا جواب ہاں میں ہو گا – انہیں بتائیں کہ اگر آپ یہ کر سکتے ہیں تو آپ جاندار ہیں -اسی طرح ایک کرسی کے بارے میں پوچھا جائے جو کہ کلاس میں پڑی ہو کہ کیا یہ کھانا کھاتی ہے، بھاگتی ہے، سوتی ہے ، چلتی پھرتی ہے سانس لیتی ہے ؟ یقینا سب بچوں کا جواب ناں میں ہو گا – پھر انہیں بتایا جائے کہ یہ بے جان ہے – اس دوران کوشش کی جائے کہ دورانِ ڈسکشن بچوں کی طرف اشارہ کر کے ان کا نام لے کر ان سے اس بارے میں پوچھا جائے – اس سے تمام طلباء ہوشیار اور چست ہو جائیں گے اور آپ کی طرف متوجہ ہو جائیں گے – پھر آپ انہیں بتائیں گے کہ کونسی چیز جاندار ہے اور کونسی بے جان ہے ؟ اس کے بعد سبق پڑھانا شروع کریں – آپ دیکھیں گے کہ بچے نہ صرف اس سے سبق میں دلچسپی لیں گے بلکہ ان کے اندر سائنس کے تصورات کو سمجھنے کے لئے ایک لگن اور تجسس پیدا ہو گا –

اپنے اردگرد موجود چیزوں سے بچوں کو سائنس سیکھائیں
بچوں کو کتابوں کی دنیا سے نکال کر اپنے آس پاس میں موجود چیزوں کی مدد سے بھی سائنس سیکھائیں -اس مقصد کے لئے انہیں کسی باغ ، ندی، پہاڑ یا جنگل کی سیر کروائی جائے – تاکہ وہ اپنے ارد گرد قدرتی ماحول میں موجود نباتات ، حیوانات، چرند، پرند، اور فطرت کے اصولوں کا بغور مشاہدہ کر سکیں اور ان کو سمجھ سکیں – یہ سب وہ چیزیں ہیں جو بچوں کے تصورات اور خیالات کو ایک نئی جہت دیں گی جس سے انہیں سائنس کے مختلف پہلوؤں پر سوچ و بچار کا موقعہ ملے گا –
” بچہ سماجی ماحول میں پنپتا ہے اس پر سماجی ماحول کا اثر لازمی ہے ”

بچوں کو سائنسی تجربات کی مدد سے عملی طور پر سمجھائیں
سائنسی علوم اور تجربات کا چولی دامن کا ساتھ ہے – سائنس ایک ایسا مضمون ہے کہ جس کی بنیاد ہی پریکٹیکل پر ہے – استاد کو چاہیئے کہ وہ جو بھی سائنس کا موضوع پڑھائے اسے عملی طور پر تجر بات کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کرے – تجربات کی مدد سے سائنسی علوم کو پڑھانے سے بچوں کے اندر سائنس کو سیکھنے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے – ان کے اندر سائنسی موضوعات کو سمجھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے – وہ سائنس اور اس کے تصورات میں گہری دلچسپی لیتے ہیں – ضروری نہیں کہ اس مقصد کے لئے معلم کو بہت مہنگے اور وسیع تر آلات چاہیئے بلکہ آسان اور کم قیمت آلات کی مدد سے بھی وہ بچوں کو سائنسی تصورات اور ان کے حقائق سمجھا سکتا ہے – اس کے لئے استاد کو پتہ ہونا چاہیئے کہ وہ کونسے ایسے تجربات ہیں جن کو آسانی سے کم وسائل میں سر انجام دیا جا سکتا ہے تاکہ اسے وسائل کی دستیابی میں کوئی مسئلہ نا ہو – اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کم لاگت اور محدود ذرائع سے ہی بچوں کو مختلف سائنسی موضوعات سمجھائے جا سکتے ہیں –
امریکی ماہر معاشیات رچرڈ گریگسن لکھتے ہیں کہ :
” سائنس کی عظیم شخصیات نے اپنا کام انتہائی آسان آلات کے ساتھ کیا ہے لہذٰا ان کے نقش قدم پر چلنا اور بغیر کسی مہنگے اور وسیع تر آلات کے سائنسی سمجھ بنانا عین ممکن ہے آخر کار طالب علم کا ذہن مطلوبہ آلات میں سب سے مہنگا اوزار ہے”
مثال کے طور پر ایک سائنسی موضوع ” آکسڈیشن کا عمل ” کو بچوں کو عملی طور پر سمجھنے کے لئے استاد کلاس میں ایک چھوٹی سی سرگرمی کر سکتا ہے – جس کے لئے وہ ایک عدد لیموں اور ایک عدد آلو لے -اب لیموں اور آلو دونوں کو دو حصوں میں کاٹ دے اور لیموں کے ایک حصے کو آلو کے ایک حصے پر لگائیں جبکہ آلو کا دوسرا حصہ ایسے ہی رہنے دے – اب آلو کے دونوں حصوں کو باہر ہوا میں کھلا رکھ دے-ایسا کرنے سے آلو کا وہ حصہ جس پر لیموں لگایا گیا تھا وہ بلکل ویسا ہی رہے گا جبکہ دوسرا حصہ بھورے رنگ کا ہو جائے گا – پھر طلباء کو بتائے کہ آلو کے ایک حصے کے بھورے ہونے کی وجہ اس کا ہوا کے ساتھ کیمیائی تعامل ہونا ہے جو کہ آکسیڈیشن کے عمل کو ظاہر کرتا ہے- جبکہ دوسرے حصے پر لیموں لگ جانے کی وجہ سے اس کا رنگ بھورا نہیں ہو گا کیوں کہ لیموں میں سٹرک ایسڈ ہوتا ہے جو کہ ہوا اور آلو کے درمیان رکاوٹ بن جانے کی وجہ سے آکسیڈیشن کے عمل کو سست کر دیتا ہے – اس تجربے کی مدد سے بچے عملی طور پر اس عمل کو سیکھ سکیں گے –

بچوں کو خود سے سائنسی تجربات کرنے کا کہیں
کسی بھی سائنسی موضوع کے حوالے سے تجربہ کرواتے ہوئے استاد اس بات کا خیال رکھیں کہ اس میں طلبہ دلچسپی بھی لیں – اس کے لئے سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کو خود عملی طور پر ان تجربات کو کرنے کا کہا جائے – مثلا ً اگر کلاس میں تیس بچے ہیں تو استاد پانچ سے چھ بچوں پر مشتمل کچھ گروپس بنا دے اور پھر انہیں خود سے تجربہ کرنے کو کہے – اس کے علاؤہ بچوں کو مختلف سائنسی ماڈلز بنانے کا کہا جائے اور اس سلسلے میں ان کی راہنمائی بھی کی جائے تاکہ وہ ان سائنسی ماڈلز کے ذریعے سے مختلف سائنسی موضوعات کو سمجھ سکیں اور ان کو رٹہ بازی سے نجات ملے گی – اسی طرح طلباء کو خوردبین (مائیکروسکوپ) کے ذریعے سے عام آنکھ سے نظر نہ آنے والے جانداروں کو دیکھنے کا موقع دیا جائے تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ یہ جاندار کیسے ہیں ؟ انکی ساخت کیسی ہے ؟ انکی کیا خصوصیات ہیں ؟ جب بچے اپنے ہاتھوں سے تجربے کریں گے تو اس سے ان میں سائنسی تصورات کو سمجھنے کے لئے ایک شوق اور لگن پیدا ہو گی – اور اس سے بھی بڑھ کر جب بچے اپنے ہاتھوں سے کئے گئے تجربات کو کامیاب ہوتا دیکھیں گے تو اس ان کے اعتماد میں مزید اِضافہ ہو گا اور وہ ہر روز کچھ نیا سیکھیں گے – روزمرہ پڑھائے جانے والے سائنسی اسباق کو جب بچے تجربات کیساتھ سمجھیں گے تو یہی بچے نہ صرف ہمہ وقت نت نئے سائنسی تصورات کو سمجھنے میں پیش پیش ہوں گے بلکہ یہ بچے کل کو سائنسدان بنیں گے اور ملک و قوم کا نام روشن کر یں گے –

طلباء کی رائے معلوم کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں
جب استاد سبق پڑھانے کے بعد اس کے متعلق کوئی تجربہ کروائے تو اس کے بعد بچوں سے انکی رائے دریافت کرے کہ انہیں یہ سبق پڑھنے کے بعد اس کے متعلقہ تجربہ کو عملی طور پر کرنے سے کیسا لگا ؟ انہوں نے اس سے کیا سیکھا ؟ کوئی ایسی بات جو آپ کو پہلے پتہ نہ تھی ؟ کوئی نئی اور دلچسپ بات جو آپ اس کے متعلق بتا نا چاہیں ؟ اس کے بعد طلبہ کے جوابات پر ان کی حوصلہ افزائی کرے -یقیناً اس سے بچوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں خاطر خواہ اِضافہ ہو گا اور وہ سائنس کے مظمون کو دلچسپی اور شوق سے پڑھیں گے-

بچوں کو اچھی سائنسی ویب سائٹس بارے آگاہی دیں
جہاں سکول و کالجز میں تجربات کی مدد سے بچوں کو سائنس سکھائی جائے وہی جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک استاد طلباء کو مختلف سائنسی موضوعات و تجربات بارے اچھی سائنسی ویب سائٹس کا لنکس مہیا کرے تاکہ بچے انٹرنیٹ کی دنیا کا استعمال کر کے اپنے علم و سوچ میں اِضافہ کر کے ان سے استفادہ حاصل کر سکیں –
ان تمام تجاویز پر عمل کر کے استاتذہ بچوں میں سائنس جیسے مضمون میں دلچسپی پیدا کر سکیں گے- طلباء سائنس اور اس کے تصورات کو شوق ، ذوق، لگن اور جذبہ کیساتھ پڑھیں گے – اور یہی طلباء مسقبل کے عظیم سائنسدان ثابت ہوں گے –

Leave a reply