میڈیا چینلز نے سینیٹر فیصل ووڈا اور ایم کیو ایم کے رہنما مصطفی کمال کی پریس کانفرنسز نشر کرنے پرغیر مشروط معافی مانگ لی-

باغی ٹی وی: چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 4 رکنی بینچ نے فیصل ووڈا اور مصطفی کمال کی پریس کانفرنسز نشر کرنے سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت کی،دوران سماعت مختلف چینلز نے فیصل ووڈا اور مصطفی کمال کی پریس کانفرنسز نشر کرنے پرغیر مشروط معافی مانگ لی، جس پر سپریم کورٹ ٹی وی جینلز مالکان کی غیر مشروط معافی منظور کرلی۔

عدالت کی جانب سے میڈیا چینلز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دی گئی جبکہ ٹی وی چینلز نے معافی نامہ نشر کرنے کی یقین دہانی کروا دی،پی بی اے کے وکیل فیصل صدیقی نے یقین دہانی کرائی کہ ٹی وی چینلز خود احتسابی کا عمل بھی بہتر بنائیں گے، ڈیلے مکینزم بھی یقینی بنایا جائے گا، پریس کانفرنس میں کی گئی توہین آمیز باتیں بھی دوبارہ نشر نہیں ہونی چاہئیں تھیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ غیرمشروط معافی صرف توہین کی شدت کو کم کرتی ہے، 1996 کا خالد مسعود کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، عدالت طے کرچکی توہین عدالت کیس میں نیت نہیں دیکھی جاتی، ڈان اخبار کا اپنا ایک محتسب ہے باقی اداروں میں بھی خود احتسابی ہونی چاہیئے۔

چئیرمین پی بی اے شکیل مسعود بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہم خود احتسابی کے عمل کو بہتر بنائیں گےجسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور وی لاگرز کس کے کنٹرول میں ہیں، ان کا بھی احتساب کریں، جس پر وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ وہ پی بی اے کے ماتحت نہیں ہیں۔

16 مئی کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پاکستان) کے رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا تھا کہ ایک غریب اور مڈل کلاس آدمی بغیر پیسا خرچ کیے انصاف کی امید نہیں رکھ سکتا، ایک جج دہری شہریت پر عوامی نمائندے کو گھر بھیج سکتا ہے تو خود اس کے لیے یہ پابندی کیوں نہیں؟اسلام آباد میں دیگر رہنماؤں کے ہمرا پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ کیا دہری شہریت پر کوئی شخص رکن قومی اسمبلی نہیں بن سکتا، تمام اداروں میں دہری شہریت کے قوانین لاگو ہونے چاہئیں، ملک میں جاری خلفشار کی وجہ سے ریاست میں کشمکش ہے، اس طرح کی سیاسی صورتحال سے ایک سیاسی کارکنان خاموش نہیں رہ سکتا ہے، عدلیہ نے نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر گھر بھیج کر ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔

15 مئی کو سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گےمیں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا، 15 روز ہوگئےجواب نہیں آیا، 19 اے کے تحت مجھے جواب دیا جائے، بابر ستار کہتے ہیں کہ جج بننے سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو رپورٹ بھیجی، ہم نے کہا کہ اس کے حوالے سے ریکارڈ روم کے اندر کوئی چیز ہوگی تحریری طور پر لیکن اس کا جواب ہمیں نہیں مل رہا۔

انہوں نے کہا تھا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے آرڈر دیا کہ ہر پاکستانی بات کسی سے بھی پوچھ سکتا ہے تو پاکستانی تو دور کی بات ایک سینیٹر کو جواب نہیں مل رہا تو اب ابہام بڑھ رہا ہے، شک و شبہات سامنے آرہے ہیں کہ اس کے پیچھے منطق کیا ہے؟

Shares: