میر حسن تو مر گیا لیکن بھٹو آج بھی زندہ ہے:علی چاند

0
53

میر حسن ابڑو بیٹا ہمیں معاف کرنا ہم نے کبھی اس پاک وطن سے بھٹو کو کبھی مرنے ہی نہیں دیا ۔ ہم نے تو آپ جیسے غریبوں ، بے بس لاچاروں کے ٹیکس کا پیسہ وہ ٹیکس جو آپ لوگ ایک روپے کی ٹافی ، پانچ روپے کی چاکلیٹ پر دیتے ہو وہ سارے کا سارا پیسہ بھٹو کو زندہ رکھنے پر لگا دیا ہے ۔ ہم نے ساری محنت بھٹو کو زندہ رکھنے پر لگا دی ہے ۔ بیٹا معاف کرنا ہم نے تو تمہارے ایک روپے کی ٹافی سے بھی ٹیکس لیا اور پھر وہ سارا ٹیکس بھٹو کے نواسے نواسیوں کے کتے پالنے پر لگا دیا ۔ میر حسن ابڑو بیٹا اس بات کا قصور وار کون ہے ؟ وہ لوگ جو آج بھی دو دو سو لے کر جٸیے بھٹو کا نعرہ لگا رہے ہیں یا وہ لوگ قصور وار ہیں جن کا آج بھی کہنا ہے کہ اگر کبھی سنو کے پی پی پی کا صرف ایک ہی ووٹر ہے تو یقین کر لینا کہ وہ میں ہی ہوں ۔

سندھ کا میر حسن ابڑو جسے کتے نے کاٹا اور کتے کے کاٹے کی ویکسین نہ ملنے پر وہ کمشنر آفس کے سامنے سسک سسک کر ماں کی گود میں ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو گیا ۔ دکھ صرف میر حسن ابڑو کی موت کا نہیں دکھ تو اس بات کا ہے کہ میر حسن کی سسکیاں ، اس کی ماں کی آہیں ، اس کی والدہ کی تڑپ بھی بے ضمیر اور بے شرم حکمرانوں کو نہیں جگا سکی ۔ میر حسن جیسے بچے تو موت کے منہ میں چلتے جارہے ہیں ، تھر میں ہزاروں بچے خوراک کی کمی کا شکار ہو کر موت کی وادی میں پہنچ گٸے لیکن بے ضمیر اور مردہ دل والوں کا آج بھی یہی نعرہ ہے کہ بھٹو کل بھی زندہ تھا ، بھٹو آج بھی زندہ ہے ۔ بھٹو کے نواسے نواسیوں کو ان کے کتوں کے ساتھ دیکھ کر ، ان کتوں کے ساتھ ان کا پیار محبت دیکھ کر بھی کیا سندھ کے لوگوں کو کبھی خیال نہیں آیا کہ لوگ یہی سمجھ لیں کہ ان لوگوں کے نزدیک اہم کون ہے ۔ اپنے ایک ایک روپے کے ٹیکس ادا کرتے ہوٸے کبھی خیال نہیں آیا کہ یہ ٹیکس بھٹو کے نواسے نواسیوں کے کتوں پر تو خرچ ہو گا لیکن سندھ کی عوام پر حرام سمجھا جاٸے گا ۔

میر حسن ابڑو کی سسکیاں بھی اگر ہم لوگوں کو ہمارے حکمرانوں کی اوقات دکھا کر ہمارے مردہ ضمیروں کو نہ جگا سکیں تو سمجھ جانا کہ کل کو ہمارا اپنا خون ، ہمارا اپنا لخت جگر ، ہماری گود میں پلنے والا میر حسن بھی ایسی اذیت سے گزر سکتا ہے ۔ آج اگر میر حسن کی آہیں ہمیں نہ جگا پاٸیں تو سمجھ لینا کہ ہم نے بھی اپنی اولاد کو اذیت دینے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ میر حسن کی موت یہ پیغام دے کر جا رہی ہے کہ آٶ پکڑو ان مردہ ضمیر حکمرانوں کے گریبان اور لو ان سے اپنے بچوں کی ایک ایک روپے کی ٹافی پر دٸیے گے ٹیکس کا حساب ، لو ان سے اپنے بچوں کی پانچ پانچ روپے والی چاکلیٹ کے ٹیکس کا حساب ۔ اگر آج نہیں بولو گے تو کل بھگتو گے ۔ میر حسن کی سکیاں بتا رہی ہیں کہ ہمیں بھٹو کو مارنا ہوگا ورنہ ہماری نسلیں اسی طرح تڑپ تڑپ کر جان دیں گی اور حکمرانوں کے کتے عیاشیاں کریں گے ۔ میر حسن ابڑو کی تڑپ بتا رہی ہے کہ آنکھیں کھولو اس سے پہلے کہ تمہارے بچوں کی آنکھیں بند ہوجاٸیں ۔

کیا قیامت گزر رہی ہوگی اس ماں کے دل پر جس کا بھٹو زندہ تھا مگر اس کا پیارا بیٹا اس کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دے رہا تھا اور بے بس ماں اپنے لخت جگر کے لیے کچھ کر نہیں پا رہی تھی ۔ میر حسن کی ماں بھی سوچ رہی ہوگی کاش بھٹو اس کے سامنے ہوتا تو اسے خود اپنے ہاتھوں سے مار دیتی تاکہ اس کے جگر کا ٹکڑا آج ایسی بے بسی کی موت نہ مرتا ۔ ماں بھی سوچ رہی ہوگی کہ کاش بھٹو کے نواسے نواسیاں اس کے سامنے ہوتے یہ بھی ان کو ایسے تڑپاتی ، یہ بھی ان کو ایسی اذیت سے گزارتی تاکہ انہیں بھی پتہ ہوتا کہ انہیں ووٹ ان کے پالے ہوٸے کتے نہیں بلکہ سندھ کے غریب عوام دیتے ہیں ۔ عوام خوراک کی کمی سے مرتی ہے تو مرے ، عوام ادویات نہ ہونے کی وجہ سے مرتی ہے تو مرے لیکن سندھی عوام کے ووٹ سے جیتنے والی جماعت کا ایک ہی منشور ، ایک ہی مقصد ایک ہی نعرہ ہے کہ بھٹو زندہ ہے ۔ خدا جانے کب بھٹو مرے گا اور سندھ کی عوام کی طرف توجہ دی جاٸے ۔

اپنے ووٹ کا جسے پاکستانی عوام محض ایک پرچی سمجھتی ہے اس کا سوچ سمجھ کر استعمال کریں ۔ تاکہ ہم سب کے میر حسن کبھی ہماری گودوں میں اس طرح دم نہ توڑیں ۔ ووٹ ڈالنے سے پہلے کبھی سوچا ہے کہ جسے ووٹ دے رہے ہو اس کا منشور کیا ہے ، اس کے بچے پاکستان میں ہیں یا کسی انگریز ملک میں کتوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں ۔

نہیں سوچا تو آٸیندہ ضرور سوچنا کیونکہ کتوں کے ساتھ زندگی گزارنے والے کتوں کا تو خیال رکھیں گے لیکن آپ کا نہیں ۔

اللہ پاک ہمارے پیارے پاکستان پر مسلط ایسے لوگوں کو نیست و نابود کرے اور پاکستان کی عوام کو کوٸی ایک ہمدرد عطا فرما دے جو ان کے دکھ درد کا ازالہ کر سکے ۔ آمین

Leave a reply