ڈیرہ غازی خان(باغی ٹی وی کی خصوصی رپورٹ) سپربند منصوبے میں میگا کرپشن دوبارہ بے نقاب، تین سال بعد بھی وہی کہانی، وہی کردار
ڈیرہ غازی خان کے علاقے سمینہ میں واقع سپربند آر ڈی 148 کی حالیہ تباہی نے ایک بار پھر تین سال قبل پیش آئے سپربند 138 کے میگا کرپشن اسکینڈل کی یاد تازہ کر دی ہے۔ اُس وقت بھی کروڑوں روپے کا فنڈ جاری ہونے کے باوجود زمینی سطح پر کوئی کام نہ کیا گیا تھا، اور آج بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ تین سال قبل باغی ٹی وی نے اس اسکینڈل کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا تھا، مگر متعلقہ اداروں اور افسران نے بجائے اصلاح کے، محض عارضی تبادلوں اور فرضی انکوائریوں کے ذریعے معاملے کو دبا دیا۔

سپربند 138 کی مرمت کے لیے 108.3 ملین روپے کی لاگت سے منصوبہ منظور ہوا، جس کا ٹھیکہ "رانا ٹریڈرز” کو دیا گیا، جس کے مالک کا تعلق ساہیوال سے تھا۔ متعلقہ افسران کی ملی بھگت سے اس کنٹریکٹر کو 55.6 ملین روپے ایڈوانس میں جاری کیے گئے، مگر سپربند پر عملی طور پر کوئی کام نہ ہو سکا۔ کام نہ ہونے کے باوجود پیسے جاری کیے جانا اس بات کی دلیل تھی کہ محکمہ انہار کے اندرونی افسران اس مبینہ کرپشن میں برابر کے شریک تھے۔ وقت مقررہ پر کام شروع نہ ہونے کی وجہ سے 2021 میں اسی بند کا بیشتر حصہ دریا بُرد ہو گیا۔ ریزیڈنٹ انجینئر محمد حنیف اور ان کی ٹیم نے موقع پر جا کر معائنہ کیا اور اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا کہ کام شروع ہی نہیں ہوا، مگر پھر بھی ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی۔

اب 2025 میں سپربند آر ڈی 148 کی تباہی نے معاملے کو پھر زندہ کر دیا ہے۔ ایک بار پھر وہی کنٹریکٹر، وہی طریقہ کار، اور وہی محکماتی غفلت دیکھی جا رہی ہے۔ مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ بند میں دراڑیں کافی عرصے سے موجود تھیں، محکمہ انہار کو کئی بار زبانی و تحریری طور پر آگاہ کیا گیا، مگر کسی نے توجہ نہ دی۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ متعلقہ افسران کو معلوم تھا کہ بند کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے، لیکن وہ جان بوجھ کر خاموش رہے تاکہ جب بند ٹوٹے تو مرمت و بحالی کے نئے فنڈز کے نام پر ایک اور کرپشن کا موقع میسر آئے۔

محکمہ انہار کے بعض افسران، جن میں مجاہد کلیم (XEN)، رشید جروار، عزیز زنگلانی، ارسلان اور خاص طور پر عاقب جاوید کا نام شامل ہے، ان تمام معاملات میں مرکزی کردار سمجھے جا رہے ہیں۔ عاقب جاوید، جو بیک وقت تین عہدوں پر تعینات ہے، اس پر پہلے بھی کرپشن کے الزامات عائد ہو چکے ہیں۔ حیران کن طور پر یہ شخص پہلے پنجاب پولیس میں سب انسپکٹر تھا اور مگر بعد ازاں محکمہ انہار میں ایس ڈی او جیسے اہم عہدے پر تعینات کر دیا گیا۔ موجودہ وقت میں وہ کنسٹرکشن، مشینری، اور ڈیزائن سب ڈویژنز تینوں کا انچارج ہے۔

تین سال قبل اس کرپشن کی تہہ میں ایک اور پہلو بھی چھپا ہے، اور وہ ہے ریت اٹھانے کا غیر قانونی عمل۔ سپربندوں کے اردگرد سے ریت اٹھانے کے ٹھیکے دیے گئے تھے ، جس سے بند کی بنیادیں مزید کمزور ہو گئیں۔ ٹھیکیداروں کو بااثر وڈیروں اور سیاستدانوں کی پشت پناہی حاصل تھی، جنہیں بدلے میں مچھلیاں، رشوت اور تحائف پہنچائے جاتے تھے۔ بند کی مرمت کے لیے جو پتھر استعمال کیے گئے، وہ بھی بغیر کسی جال کے دریا میں یوں ہی پھینک دیے گئے، جس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔

بند ٹوٹنے کے بعد متاثرہ علاقوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ مقامی مساجد میں اعلانات کروا کر لوگوں کو محفوظ مقامات پر جانے کا کہا گیا، جبکہ محکمہ کے افسران کئی گھنٹے تاخیر سے موقع پر پہنچے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بند ٹوٹنے کے بعد ٹھیکیدار نے چند صحافیوں کو بھی رشوت کی پیشکش کی، تاکہ یہ معاملہ میڈیا پر نہ آئے۔ مگر بعض ذمہ دار صحافیوں نے وہ ویڈیوز ریکارڈ کیں، جن میں بغیر کسی جال کے بہتے پانی میں پتھر ڈالے جا رہے ہیں — جو کہ محض کرپشن کا طریقہ ہے، تحفظ کا نہیں۔

عوام کا کہنا ہے کہ سپربندوں کی تباہی کوئی قدرتی آفت نہیں، بلکہ یہ انتظامی غفلت، بدانتظامی اور منظم کرپشن کا نتیجہ ہے۔ تین سال قبل جن سوالات کو میڈیا نے اٹھایا، آج بھی وہی سوالات اپنی جگہ موجود ہیں: ایڈوانس رقم دینے کے بعد کام کیوں نہ ہوا؟ ذمہ داروں کو سزا کیوں نہ ملی؟ رانا ٹریڈرز کو دوبارہ ٹھیکے کیسے ملے؟ اور تین سال بعد بھی عوام کی زمینیں، گھر، اور فصلیں کیوں ڈوب رہی ہیں؟

متاثرین اور شہری حلقے مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت فوری طور پر اس میگا کرپشن اسکینڈل کی عدالتی انکوائری کا حکم دے، اور ان تمام افسران، ٹھیکیداروں، اور سرپرست سیاستدانوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے، وگرنہ مستقبل میں اس سے بھی بڑے سانحات جنم لے سکتے ہیں۔

Shares: