صف عدو میں کھڑے تھے سبھی حبیب مرے
ترے بھی ہاتھ میں تیر و کمان لگتا ہے
معروف شاعرہ، فکشن نگار، مبصر، مکالمہ کار،مضمون نگار، نقاد اور سوشل ورکر مہر افروز کا اصل نام مہر افروزہ خانم ، قلمی نام ۔مہر افروز 25 جون 1968 کو کرناٹک میں پیدا ہوئیں۔والد کانام مرحوم ۔یعقوب خان ہارون خان اور والدہ کا نام زبیدہ بیگم ہے۔مہر افروز کی تعلیم یم اے ۔ انگریزی اردو، عربی ہندی یم ایڈ، یم فل پی ایچ ڈی(جاری ) تصوف موضوع ہے ۔وہ استاد الساتذہ برائے انگریزی زبان اور طریقہء تعلیم Teacher Educator DIET ضلع تعلیمی و تربیتی ادارہ دھارواڈ کرناٹک ہیں۔
لکھنے کی ابتداء فلیش فکشن سے کی 1983 سولہ اپریل کو سالار سنڈے ایڈیشن میں افسانہ” لاشیں” شائع ہوا تھا ۔اب تک  200 سے زائد افسانے لکھ چکی ہیں۔اب تک کل 60 نصابی و غیر نصابی کتابیں  لکھی ہیں ۔ادبی کتب کے نام ہیں
۱۔”حقائق گلستان ” ِ حضرت ہاشم پیر بیجاپور سوانح (۔ریسرچ ہے)
۲  ۔۔افسانوی مجموعہ "۔ٹوٹتی سرحدیں”2021 میں شایع ہوچکا ،  ۳  شعری مجموعہ۔” عکس در عکس ” زیر اشاعت ہے۔
۴  "تنہا جزیرے” ۔تحقیق, تبصرے اور خاکوں کا مجموعہ زیر طباعت ہے۔
ان کی ادبی ، ملی، سماجی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئ ایوارڈ اور اعزاز بھی مل چکے ہیں۔
اعزازات :
۱۔”تریاق” ماہنامہ۔ممبئی  کی گوشہء خواتین کی مدیر ہیں ۔جہاں ایک سلسلہ چل رہا ہے "جدید شاعرات ” تیس سے زاید مضامین شایع ہوچکے ہیں۔ یہ کتاب بھی بن رہی ہے ۔تیس شاعرات پر اب تک  وہ لکھ چکی ہوں ۔
۲۔۔تریاق نے سن دوہزار اٹھارہ کا خواتین نمبر ان کے نام سے نکالا تھا
انعامات :
۔۱۔ بہترین افسانہ نگار سال 2017 سادھنا قومی ایوارڈ
۲۔بہترین ماہر تعلیم سنگولیّ راینا قومی ایوارڈ سن دوہزار بارہ ۔۔۔۔۔۔دھارواڈ شہر کی گوگل میپنگ کرواکر تاریخی عمارتوں، اہم مساجد، درگاہوں کی المختصر تاریخ کے ساتھ گوگل پر اپ لوڈ کرنے پر ۔
۳۔اکاّ مہادیوی ایوارڈ ۔بہترین ماہر تعلیم اور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے سماجی خدمات اور کونسلنگ کے لئے ۔
 وہ ھدیٰ فاؤنڈیشن نام سے ادارہ، اور ویب سایئٹ کی مالک ہیں اور ایک رسالہ خرمن”  ۔نکالا تھا جسے بعد میں انہوں نے برقی کردیا۔
افسانوں کے علاوہ وہ غزلیں آزاد نظمیں پابند نظمیں، تنقید، خاکہ نگاری، مضامین بھی  لکھ چکی ہیں ۔ان سے لوگ خاص کر  اپنی کتابوں کا پیش لفظ لکھنے کی فرمائش کرتے ہیں ۔وہ اب تک سو سے زیادہ مقامی، قومی، بین الاقوامی سمینارس میں شرکت کرچکہیں اور مقالے اردو، انگریزی اور تاریخی مضامین پر پڑھ چکی ہیں جسٹس سچر کی سچر کمیٹی کی کرناٹک اقلیتیں سماجی ،معاشی، تہذیبی، تعلیمی حالت کی 270 صفحات کی رپورٹ اور 2.30 گھنٹے کی ڈاکیومینٹری فلم کی رائیٹر ڈائریکٹر ہیں ۔
دیگر سماجی ملی خدمات
۱۔۔مخصوص بچوں کے لئے تعلیمی سہولیات اور سرکاری پروگرامز پر گدگ اور دھاواڈ ضلع کی ڈاکیومنٹری فلم بنائی ہے ۔
۲۔منریگا اسکیم اور دھارواڈ ضلع کے کسان ۔اسکی ڈاکیومینٹری کرشی درشن کے لیے بنائی ہے
۳۔تعلیمی اور نفسیاتی کونسلر ہیں اب تک کئی لوگوں کو ڈیپریشن سے نکال کر صحیح راستہ پر لگانے کی کوشش کرچکی ہیں خاصکر وہ مسلمان لڑکے اور لڑکیاں جو میڈیکل کالج اور انجنیرنگ کالج میں پڑھتے تھے، ڈرگ ایڈکٹ بن گئے ۔ان کو واپس لاکر سماج کے لیے ایک کارآمد اکائی بنانے کی کامیاب کوششیں کی ہیں ۔
۴۔۔مسلم پراسٹیٹوٹس کے بچوں کو تعلیمی سہولیات فراہم کروانا، انکی سوچ بدلنا اور انکو بہتر زندگی کے لئے تیار کرنا، یہ کام بھی کیا ہے اور کامیاب رہی ہیں –
اداروں سے وابستگی
۱۔رکنیت : ٹیکسٹ کمیٹی  ریاست کرناٹک کی ممبر ہیں ۔
۲۔۔برٹش قونصل آف انڈیا ساوتھ زون کی واحد خاتون ممبر ہیں  اور رابطہ کار برائے تعلیم وتربیت برائے فروغ انگریزی زبان کام کرتی ہیں۔
۳۔۔ین سی پی یو ایل کی تخلیقی ادب اشاعتی کمیٹی کی رکن  ہیں ۔
پڑھنا ،فلم بنانا، فوٹو گرافی ۔باغبانی، سیاحت اور روزانہ کچھ نہ کچھ لکھنا ان کا شوق ہے
_________
معروف شاعرہ اور فکشن نگار مہر افروز کے یوم ولادت پر پیش خدمت ہے ان کا نمونہ کلام ۔
نعت ۱
 آپ ہیں نور جہانوں کا رسول عربی
اور ہیں خلق زمانوں کا رسول عربی
ختم سب آپ پہ قصے ہیں زمانے بھر کے
آپ عنوان فسانوں کا رسول عربی
راز کچھ راز نہیں عرش پہ جانے والے
آپ مظہر ہیں نشانوں کا رسول عربی
خاک پا بن گئی سریاب چھون سے تیری
رہے نعلین  یگانو ں کا رسول عربی
راز کچھ راز نہیں عرش پہ جانے والے
آپ مظہر ہو نشانوں کا رسول عربی
ہر نفس بن گیا حقدار درود و صلواہ
ہے ہر اک شاہ گھرانوں کا رسول عربی
مجھ کو بس خاک مدینہ کی شفایابی ہو
مجھ میں ڈیرہ ہے گمانوں کا رسول عربی
_________
نعت ۲
ہے رحمتوں کا امین پیارا، نبی کے جیسا کوئی نہیں ہے
مرا نبی ہے فلک کا تارہ نبی کے جیسا کوئی نہیں ہے
سب اپنے دل پر لیے مصائب جو دین حق کا سفر تھا باندھا
دلوں کا درماں، دلوں کا ماویٰ نبی کے جیسا کوئی نہیں ہے
مثال قائم وہ کر گئے ہیں، جہان روشن وہ کر گئے ہیں
نبی ہے میرا حکیم و دانا نبی کے جیسا کوئی نہیں ہے
ہے امِّ سلمیٰ کے سر پہ بوجھا، نبی نے روکا ہے اپنا ناقہ
نبی نے ڈھویا ہے بوجھ دوجا، نبی کے جیسا کوئی نہیں ہے
حرا سے نکلا وہ حکم لے کر ،کیا
ہے روشن یہ جگ ہمارا
زمانے بھر کا، وہ نوراعلیٰ، نبی کے جیسا کوئی نہیں ہے
عطائی لمحوں کا وہ محافظ، فقیری تہذیب کا جو وارث
ہے کالی کملی میں خود چھپایا، نبی کے جیسا کوئی نہیں ہے
 فدا ہیں انساں، فلک فدا ہے، فدا ہے تجھ پر خدائی ساری
ہے تیرا اخلاق خاص سارا، نبی کے جیسا کوئی نہیں ہے
صبا سے کہہ دو مدینہ جائے سلام میرا انہیں سنائے
سلامتی کی اداؤں والا، نبی کے جیسا کوئی نہیں ہے
_________
 ہانپتی کانپتی زندگی
اک لکڑی کے سہارے چلتی
اپنی سانسوں کی دھونکنی پر
اشک بہاتے چلتی
زندگی سے نادم ہے
مر نہیں سکتی
بوجھ ڈھونے کی سکت نہیں باقی
بوجھ ڈھوتے ہویے ہے چلتی
جنکا اب تک سہارا بنی
بے سہارا کر گئے
جنکو کندھے دئے تھے کبھی
تماشا دہر کا دیکھنے
آج وہ کندھے سبھی
کسی اور کا سہارا تو ہیں
مگر
ان شانوں کا کیا
زندگی نے جھکایا جنہیں
کیا لکڑیوں کے سہارے جئیں ؟
لکڑیوں کے سہارے چلیں
ہانپتی کانپتی زندگی
کب تک یونہی تو چلتی رہے ؟؟؟.؟
_________
 اسے ڈھونڈتی ہوں اکثر
جو کہیں پہ کھوگیا ہے
ابھی رکھا تھا دل کے اندر
کبھی یاد میں رکا تھا
کہیں شعور کی تہوں میں
میری ذات کا  نشاں تھا
تھی مشام جاں معطر
اسی  خوشبوؤں کے بل پر
میرے یقیں کو کس نے لوٹا
میرا کھوگیا بھروسہ
ہوا اعتبار زخمی
یہ پڑا ہوا ہے لاشہ
بے کفن سی آرزو کا
اسے کس نے ہے کھدیڑا
اسے کس نے آکے نوچا
یہ تن بریدہ سر ہے
میری وفا کی میتوں کا
اگر کر سکو تو کردو
ایک کرم میرے  بدن پر
لٹی عظمتوں کا نقصان
میرے یقیں کی ساعتوں کا
جو دے سکو تو دے دو
میرے یقین کا خزانہ
میرا اعتبار دیدو
میرا بھروسہ مجھ میں بھردو
ورنہ یہ کرم تو کردو
کھڑا ہوا یہ بے جان لاشہ
میرے یقیں کا بنا ہے مدفن
دفن تو کردو کہیں پہ جاکر
ورنہ
بے اعتباریوں و بے یقینیوں
جرثومے سارے
بکھیر دیگا تری فضا میں
سڑن سے اپنی
___________
 روشنی روشنی ہی کرتے ہو
کبھی سوچا بھی ہے یہ تم نے
روشنی کے بھی مسائل ہونگے
اسکے ضبط وقوانیں  ہونگے
اسکی بھی مجبوریاں رہی ہونگی.
ظلمتوں کی وہ بھی تو ماری ہوئی ہوگی
ہجر نے اسکو بھی ڈسا ہوگا
نارسائی کا بھی گلہ ہوگا
روشنی بھی روشنی کو ترستی ہوگی
روشنی سے بھی جلی ہوئی ہوگی
چاہنے والے روشنی کے سبھی
کبھی راتوں کے بھی رسیا ہونگے
روشنی نے بھی مہلتیں لکھی ہونگی
اسکے آنسو بھی تو جلے ہونگے
وہ بھی بیتاب تو رہی ہوگی
شجر سائے کی تمنا ہوگی
روشنی روشنی جو کرتے ہو
کبھی روشنی کی بھی قدر کی ہے
کہ جب پکارو تو وہ بھی آجائے
__________
میرے سنسناتے پیروں کا احساس
یہ کہتا ہے
کہ میں سنگ ہوتی جارہی ہوں
میں نے سوچنا چھوڑا
خود کو تیرے تابع کردیا
میں نے پڑھنا چھوڑا
کہ
تم نے مجھے پڑھنے لگے
میں نے چلنا اور سفر کرنا چھوڑا
کہ
تم میرے ہم سفر تھے
اور مجھے لگا
یہ زندگی اصل سفر ہے
میرے احساس کی طنابیں
تمہاری پسلی سے شروع ہوکر
میری پسلیوں میں مقید دل پر
ختم ہوتی تھیں
سارے احساس کٹ گئے
جذبے مٹ گئے کہ
میں نے تم کو پاکر آنکھیں
بند کرلیں تھیں
آج اتنے سالوں بعد
ویرانیوں کے صحراء میں
تنہا کھڑی
میں سوچوں
کیا عجب تماشہ تھا
کہ سارے کھیل خود پر بند کرلئے
ایک شخص کی ہوکر,
میں نے خود کو
پتھر کرلیا
تم نے میرے مجسمہ کو
گھر کے شوکیس میں سجا کر,نکل گئے
پتھر ہوتی میں
اپنی آنکھوں سے اس
قید کو دیکھوں
اور چاہوں
کوئی آواز دے
کسی جاوداں اسم کوپڑھے
کہ پتھر ہوتی میں
ِجلا پاؤں
اس قید کے شیشے کو توڑوں
باہر نکل آؤوں
کہ انکھوں کی روشنی بجھنے سے پہلے
کچھ پل جی سکوں
مجھے آواز دو
میًں پتھر ہوتی جارہی ہوں
__________
ہم اپنے سچ جیتے ہیں
ہم اپنے دائیروں میں مقید گھومتے
اپنی سوچوں کے قیدی
اپنی نظروں سے ساری دنیا کو دیکھتے اور پرکھتے
اپنی سوچوں کو اوروں پر
لادنے کی کوششوں میں
یہ   بھولتے ہیں کہ
ہمارا سچ
سب کا سچ
نہیں ہوتا
سب کا سچ
سب سچ نہیں ہوتا
کیونکہ
کائیناتی سچ
سب کی سمجھ نہیں ہوتا
میرے اور تیرے سچ کے فرق نے
کتنے فساد مچادئیے!!!!!
کتنے آسمان اور کتنی زمینیں
جل گئیں
کواکب ٹوٹ کر بکھرتے رہے
مگر ہم نے اپنے اپنے سچ سے کبھی پلٹنا نہیں سیکھا
ہم سچے لوگ
اپنے سچ پر جمے رہے
کائیناتی سچ کی سمجھ
ہمیں کب آئیگی
کہ تیرے اور میرے سچ کا اختلاف
ختم ہو
تم اور میں
ایک ہوجائیں
سچ کے سچ میں
جو سچا سچ
کائیناتی سچ
اور ازلی
سچ ہے ……
__________
ہم آدم زاد
ہم آدم زاد
نسلوں ،ملکوں ،
مذہبوں،ذاتوں
مسلکوں اور قبیلوں
میں بٹے ہم
کیا کبھی یہ سوچیں
کہ ہم اولاد آدم
عشق کے جنوں میں
زمین پر پھینکے گیےء
کسی بم میں موج زن
ایٹمس کی قوت و رفتار
سے زمین پر پھیلے
پھیلاو میں اتنے دور ہوےء
کہ اپنی کوکھ کو بھلا بیٹھے
ایکدوسرے کو کاٹنے لگے
یہ جانے بنا کہ ہم ایک
ہی کوکھ کے وہ سو پنڈ ہیں
جنکو الگ الگ مٹکوں میں رکھ کر پیدا کیا گیا
تو کیا اس کوکھ سے ہمارا رشتہ ٹوٹ گیا
جس کے پنڈ کے ہم سو ٹکڑے بناےء گیےء تھے
ہر مٹکے میں پل کر ہم نے سوچا
یہی ہمارا پنڈ ہے
اے کنویں کے مینڈکو !!!!
زرا باہر نکلو
خود کو پہچانو
سب مل جاو
واپس
ایک پنڈ بنو
اور اس کو دیکھو
جس نے ہمیں
اذن ہجرت دی
وہ واپس ہمیں بلا رہا ہے
اے اولاد آدم
کیا اب بھی
اپنے گھر لوٹ جانے کا وقت نہیں آیا؟
آؤ لوٹ چلیں ازلی عشق ہمیں بلا رہا ہے
___________
جنونِ آگہی
 مجھ کو تو کس سمت لیے جاتا ہے
میں کبھی اِس پل میں
کبھی اُس پل میں
سما جاتی ہوں
عشق تو عشق ہے
بندوں سے کہ رب سے ٹہرا
یہ وہ جذبہ ہے ،
جو مجھے لامحدود کیے جاتا ہے
میں جو اک ذرہّ تھی پوشیدہ فضاؤں میں کبھی
عشق کی آگ مجھے
مہکاتی ہے پھیلاتی ہے
بن کے کہ آتشیں گولہ سا
بکھر جاتی ہوں
کر ضیا پاش زمانے کو ،نکھر  جاتی ہوں
تھی مگر خاک
پھر خاک ہی بن کے میں
بکھر جاتی ہوں
عشق ابجد تھا
عشق انزال تھا
عشق ضیا بار ہوا
عشق کے خاک بھی ہونے کے زمانے آئے
یہ بھی سچ ہے کہ
عشق کبھی فانی نہ ہوا.
اے ازل تو ہی تو عشق
انجام بھی عشق
عشق تو بھی ہے
اور میں بھی ہوں
پورا سنسار
کیوں عشق کو بدنام کرو
کچھ اگر کرنا ہو تو
اپنی اناؤں کو زیرِ نیام کرو
_________
غزل ۱۔
تم نے جو پوچھا ہے تو سچ بات بتا دی جائے
کیا کہ بیتے ہوئے لمحوں کو سزا دی جائے
گرچہ موجود زمیں پر ہیں طلبگار بہت
دل میں جس شخص کی چاہت ہے، بجھا دی جائے؟
وقت زندان سا ہے، لمحے ہیں زنجیر بہ کف
یہ ہوا آج زمانے میں اڑا دی جائے؟
تاج گل کی ہیں طلب رکھتے زمانے والے
مالا خاروں کے انھیں آج تھما دی جائے!!
یاد کی ریت پھسلتی ہی رہی تارۂ شب
دن کو یہ ریت ہوائوں میں ملا دی جائے؟
داستاں لکھتے رہے چشم بہ نم عمر تمام
سبھی اوراق جلا کر جو ہوا دی جائے
شب کی آوارگی و دشت نوردی دن کی
میری تخلیق کے پہلو میں سلا دی جائے
وقت تیزاب ہے، ہر جھوٹ جِلا دیتا ہے
میرے منصف کے حویلی کو منادی جائے
آئینہ بن کے سسکتی ہوئی آنکھیں میری
محفل یار ،کہ پھر آج سجادی جائے
میں ہوں گرداب، تماشائی ہو تم ساحل کے
دیکھنا زور ،سمندر میں جو وادی آئے
دل کی نگری ہوئی پھر آج دعا کا مسکن
کیوں نہ پھر آج محبت کو دعا دی جائے
ہوگئے آج سے بس صاحبِ عرفاں ہم بھی
یہ بھی افواہ سرِ ہجر اڑادی جائے
منتظر دید کے ہیں مہر زمانے والے
منتظر عید کے کہتے ہیں فسادی جائے
__________
غزل ۲
"اپنی خوشبو پہ خود ہی شیدا ہوں ”
مثلِ آہو   بھٹکتا پھرتا ہوں
لب پہ خاموشیوں کے تالے ہیں
اپنی نظروں سے میں تو گویا ہوں
سر پرستی رہی غموں کی مگر
مست لمحوں سے میں بھی گزرا ہوں
بے یقینی رہی تمام حیات
چشم بینا کا میں بھی پرکھا ہوں
حادثوں کا نگر رہاہوں کبھی
آخری باغ کا میں غنچہ ہوں
بجھ گیئ برگ و گل کی بینائی
میں گئے کل کی رُت کا قصہ ہوں
نکھری نکھری فضا کا میں باسی
وقت کے ساتھ ساتھ بکھرا ہوں
کوئی سمٹے تو پھر سے بن جاؤں
گویا مٹی کا کوئی دھیلا ہوں
اپنی راہ خود ہی میں بنالونگا
بہتے پانی کا ایک ریلا ہوں
اس تماشے پہ کچھ تو بول زرا
اپنی ہی ذات کا میں میلہ ہوں
یوں بکھیرو نہ مجھکو یارو تم
میں کسی آنکھ کا ستارا ہوں
__________
غزل ۳
ہر ایک زخم محبت نشان لگتا ہے
کہ سارا لکھا ہی دردِ جہان لگتا ہے
صف عدو میں کھڑے تھےسبھی حبیب مرے
ترے بھی ہاتھ میں تیر وکمان لگتا ہے
ارادہ تھا ترے ہی دل میں گھر بسالیتے
مگر ابھی تو یہ کچا مکان لگتا ہے
دیار غیر میں کوئی درخت سایہ دار
کہ اپنے شہر میں گھر بھی مچان لگتا ہے
محیط ہر جگہ تو ہی تو ہے مرے مولا
تو چلتا دہر، زمین و زمان لگتا ہے
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤگے ہم سے پیروکار
عتاب کا تو ہمی پر لگان لگتا ہے
یوں آپڑا ہے مرے سر پہ آسماں یک لخت
"جب اپنے ہاتھ میں سارا جہان لگتا ہے "








