کس کی داستان پہلے کہیں مماثلت اتنی ہےکہ خدشہ ہے پہلے کی پڑھ کر دوسرے کی سمجھ جائیں گے سب۔ بہرحال شہرہ آفاق مزاح نگار مشتاق یوسفی کی کتاب آبِ گم کے صفحہ نمبر 269 ، باب شہر دو قصہ ذیلی باب پنجم میں ملا عبد الصمد عرف مُلا عاصی کا قصہ لکھتے ہیں جس میں ایک مقام پر ذکر ہے بی اے کے امتحانات سے قبل مُلا عاصی کی ریاضت کا جو انہوں نے کامیابی کے حصول کے لیے کی۔ کوشش ہے اپنے الفاظ میں بیان کروں مشابہت ہوگی چونکہ متاثرین مشتاق یوسفی سے ہوں لہذا قلم و اسلوب میں ان کا رنگ جھلکے گا کیونکر کہ مشتاق یوسفی کو جس نے بھی پڑھا سیکھالازمی یہ کمال صاحب کتاب کا ہے نہ کہ صاحب تحریر کا۔
ملا عاصی نے امتحان کی تیاری شروع کرنے کا آغاز کیا سب سے پہلے بازار سے سونف اور دھنیا خشک لائے اور اس کو ملا کر سفوف تیار کیا۔ اس کے بعد تمام تصاویر جو ان کے کمرے میں تھیں(انڈین ایکٹریسسز کی) اتار کر خاندان کے بزرگوں کے فوٹو ٹانگے ۔ مثنوی زہر عشق اور اس نوع کی کتب صندوق میں بند کیں۔ ہر کام اور عیش و عشرت چھوڑنے کا تہیہ کیا کرسمس کے دن سے یوم امتحان تک اور دل ہی دل میں Both days inclusive کہہ کر مسکرا دیے کی تیاری کے دباو کے زیر اثر چہرہ دیکھنے سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے لہذا آئینے پر کپڑا ڈالا۔سر منڈایا کہ دماغ کو تراوٹ ملے اس پر سرسوں کے تیل کی مالش کرائی 7 بادام توڑ کر ان کو پانی میں بھگویا کہ تاروں کی چھاوں میں رات بھر بھیگے بادام حافظہ بڑھاتے۔ علی الصبح بادام نوش فرمائے اور پھر بازار سے پچھلے پانچ سالہ پر چے، خلاصے اور کتب خرید کر لے آئے اس ذخیرہ میں سابق طلبا نے قلم زد اہم حصوں کے علاوہ ان خطرناک مقامات کی بھی نشاندہی کی تھی جہاں اکثر طلباء فیل ہوئے بعض حصے تو مثل لائٹ ہاوس تھے جو علم کے سمندر میں بھٹکے مسافروں کو انتباہ کرتے تھے کہ یہاں کئی اداس نسلیں مدفون ہیں۔ اس کے بعد یونیورسٹی کے سب سے لائق طالب علم کے پاس جاکر اس کی تمام کتب مستعار لیں محلے کے ایک لڑکے کو اجرت پر مقرر کیا کہ کہ ان کتب کو دیکھ کر اہم انڈر لائن حصے میری کتب پر بھی انڈر لائن کر دو اپنی کتب نے سائیکل پکڑی تمام تر درسی کتب معہ خلاصہ جات ایک پرانی کتابوں کی دکان سے خریدے اور پچھلے سال ٹاپ کرنے والے طالبعلم کے گھر جاکر اس کے اہم حصوں پر نشان لگوا لیے۔ واپسی پر کھڑے پیر پریس سے دو مہریں Important اور Most important بنوا کر ایک ٹاپر کی منت کی کہ بقدر اہمیت مہریں لگاتے جاو۔ اس کے بعد مُلا عاصی نے تمام کتب کے وہ حصے جو اہم نہ تھے قینچی سے کاٹ دیے کہ کتاب کی صخامت سے طبیعت پر بوجھ بڑھتا ہے۔ اس کے بعد ذاتی مطالعہ، تجربہ اور کشف کی بنیاد پر چند مزید اسباق بھی کتر دیے۔ اس کے بعد جب ملا عاصی کو لگا کہ ممتحن کے خلاف آدھی جنگ تو وہ جیت چکے لہذا اب پڑھ لینا چاہیے تو انہیں یاد آیا کہ سب کتابیں پڑھ کر امتحان دینا کہاں کی دانائی ہے انسان کو خود سے بھی کچھ پتا ہونا چاہیے لہذا فیصلہ کیا کہ زندگی اور بینائی نے اگر وفا کی تو امتحانات تک چیدہ چیدہ کتب کے اہم حصے ایک نظر دیکھ لیں گے کس واسطے کہ ہر کتاب کو عرق ریزی سے نہیں پڑھا جا سکتا۔ جب امتحان سر پہ پہنچا تو کمرہ نشیں ہو کر قریبی پڑوسی سے کہا کہ باہر سے تالا لگا دو تاکہ یکسو ہو کر پڑھائی ہو سکے لیکن شام تک دماغ کا تالا نہ کھلا۔ لہذا پڑھائی شروع نہ کی۔ ایک ہندو طالبعلم سے برہمچا رہنے کا گُر پوچھا تھا اس نے کہا تھا کہ سوئی پاس رکھو اور کسی بھی بری تمنا یا خیال کے آنے پر انگوٹھے میں چبھو لو خیر ایک گھنٹے میں دونوں انگوٹھے پن کُشن بن چکے تھے اب کی بار پاوں کے انگوٹھے میں پن چبھونی پڑی۔
رات ڈھلے سائیکل لی اور صبح تک شہر کے تمام پرنٹنگ پریس کی ردی بوروں میں بھر کر گھر منتقل کی اور کاغذ کی کترنیں جوڑ کر اندازے قائم کیے جس جس استاد پر شبہہ تھا کہ پیپر سیٹر ہو سکتا اس کے گھر کے ملازمین بچوں تک کو کھنگال ڈالا۔ گھر کے دروازے پر رات گئے جاکر مراقبہ کیا۔ جب امتحان میں ایک ہفتہ رہ گیا تو تمام کاوشوں پر مبنی دس سوال کا ایک پرچہ آوٹ کیا اور پوری رات گھوم کر علم کے متلاشی طلباء میں بانٹا۔ ستم بالائے ستم کہ ان کے آوٹ کردہ دس میں سے آٹھ سوال پہلے پرچے میں آ گئے اور ملا عاصی نے امتحان میں بیٹھنے سے انکار کر دیا کہ جس علم سے ذاتی فائدہ ہو رہا ہو وہ کشف باطل کر دیتا۔ غرض یہ کہ جتنی محنت انہوں نے کورس کے انتخاب اور پرچہ آوٹ کرنے میں کی اس کا ایک چوتھائی کر لیتے تو امتحان پاس ہوجاتا۔
محکمہ تعلیم کے بارے سمجھ تو گئے ہوں گے مختصراً عرض کر دیتا ہائیر سیکنڈری، ہائی ، مڈل پرائمری، پی ایس ٹی ، ای ایس ٹی، ایس ایس ٹی، ایس ایس، ٹرپل ایس، ہیڈ ٹیچر، ایچ ایم ایس ایم، سب کا حال بیان ہے الگ الگ ذکر قارئین کو الجھائے گا۔ اسمبلی میں ناخن چیک، بال چیک، یونیفارم چیک، ٹائی، کیپ بیلٹ لازمی۔ بعد از اسمبلی ناظرہ قرآن و ترجمہ بلحاظ کلاس ۔ منتھلی سٹوڈنٹ رینکنگ پروفارما، ٹیچر رینکنگ، حاضری رجسٹر پر الگ ایپ پر الگ روزنامچہ ترتیب دینا۔ غیر حاضر طلباء کے گھروں میں رابطہ، داخلہ مہم اس کے ذیل میں کارنر میٹنگز، یوپی ای رجسٹر بنانا۔ داخلے اوپن تو ہیں ہی گھروں سے جاکر آوٹ آف سکول طلباء لانے داخلے کے ہر سال ٹارگٹ اکتوبر میں پھر نیا داخلہ ٹارگٹ، ڈی ورمنگ ہر سال، الیکشن، مردم شماری زراعت شماری، ووٹرز کا انراج، ویری فیکیشن، میٹرک نہم دہم۔ ایف اے امتحان، پیپر مارکنگ، پر یکٹیکل امتحان ڈیوٹی ، پولیو، کورونا چلو گزر گیا وہاں بھی رہی ڈیوٹی۔ گندم خریداری سرکاری طور پر جب ہو ٹیچرز کی ڈیوٹی کاکردگی ایپ پر زیبرا کراسنگ سکول کی ہر ہفتے پکچرز، سارا سال ڈینگی ایکٹوٹیز، سکول کے اندر شجر کاری، صفائی پنکھے تک صاف جالے ختم۔ پینے کا صاف پانی واش پوائنٹ واش کلب، سکول مینیجمنٹ کونسل اجلاس این ایس بی اور ایف ٹی ایف فنڈ بینک کے چکر ایک ہیڈ چینج ہو تو سائن اپ ڈیٹ کرانے کے لیے دو رنگین تصاویر، شناختی کارڈ بائیو میٹرک ویری فیکیشن سیلری سلپ کوسگنیٹری کی پینشن بک یا زمین کا فرد معہ فزیکل حاضری بینک۔ سکول میں کوئی درخت جو کٹوانا ہو دیوار کے پاس ہو یا موٹر کے تو درخواست ہائر اتھارٹی کو ان کی جانب سے محکمہ جنگلات کو فارورڈ محکمہ جنگلات کا وزٹ درخت کی سرکاری قیمت کا تخمینہ اس کے بعد کم از، کم بولی کا ریٹ مقرر، منتھلی پیرنٹ ٹیچر میٹنگ کاروائیاں درج لگ۔ بزم ادب معہ رجسٹر کاروئی۔ Tablet پر اخراجات کا انراج الگ کیش بک پر مینوئل الگ ۔ باتھ روم صفائی، کریکٹر بلڈنگ کونسل اب سکول بیس ایمرجنسی پلان، سالانہ ایکشن پلان، ورک پلیس تحفظ جواتین کمیٹی، COT فارم، اے ای او وزٹ ایم ای اے وزٹ، ٹیچر ڈائری مکمل لیسن پلان بنے ہوں۔ دفتر سے روزانہ تقریباً ڈاک اس سب میں پڑھائی کا تعلق ملا عاصی کی پڑھائی جتنا رہ جاتا
۔ اوپر سے 2018 کے بعد بعدبھرتی بند۔ ریشنلائزیشن معطل، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔