محمود الحسن گیلانی ،ادیب، شاعر، مصنف اور قانون دان

0
64
mehmood gilani

اس شہر حوادث میں اگر ٹوٹ بھی جائوں
اک عکس مرا شہر کے لوگوں میں رہے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمود الحسن گیلانی ،ادیب، شاعر، مصنف اور قانون دان

وہ میاں نواز شریف، قاضی حسین احمد، راحت فتح علی خان ،اداکارہ میرا و دیگر نامور شخصیات کے وکیل رہ چکے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گفتگو و تعارف : آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور پاکستان سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب، شاعر ، مصنف اور نامور قانون دان محمود گیلانی صاحب 12 دسمبر 1964 میں ضلع شیخو پورہ کے گاؤں ” لالکے” میں واقع اپنے نانا محترم کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید محمود الحسن گیلانی اور قلمی نام محمود گیلانی ہے ۔ والد صاحب کا نام سید سردار محمد گیلانی جو کہ ایک زمیندار پیشہ تھے 2011 میں ان کی وفات ہوئی ۔ محمود گیلانی کے دادا سید ولایت حسین گیلانی بہت بڑے عالم ، بزرگ و روحانی شخصیت اور حافظ قرآن تھے ضلع جالندھر کے ایک گاؤں کی مسجد کے امام تھے ان کی اہلیہ سیدہ حسن جان بھی قرآن کی حافظہ تھیں اور گاؤں کی بچیوں کو قرآن کی تعلیم دیتی تھیں سید ولایت حسین گیلانی کے حسن اخلاق اور دینی تعلیمات سے متاثر ہو کر ہزاروں غیر مسلم ان کا دست بیعت ہو کر مسلمان ہو گئے ۔ تقسیم ہند کے بعد سید ولایت حسین اپنے خاندان کو ساتھ لے کر ہندوستان سے ہجرت کر کے لاہور پاکستان منتقل ہو گئے ۔ سید محمود الحسن گیلانی نے پرائمری تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول ڈھلواں ضلع لاہور، میٹرک گورنمنٹ اخوان ہائی اسکول برکی لاہور سے گریجو ایشن وفاقی گورنمنٹ اردو آرٹس کالج کراچی ، ایم اے اردو اور ایل ایل بی جامعہ پنجاب لاہور سے کیا۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل ہیں لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں فوجداری کے مقدمات لڑتے ہیں۔ وکالت کے شعبے میں ان کی مقبولیت اور شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ، جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد، گلوکار راحت فتح علی خان ، کرکٹر عبدالقادر ، اعجاز احمد، پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما فوزیہ وہاب اور اداکارہ میرا و دیگر کئی نامور شخصیات کے وکیل رہ چکے ہیں۔ وہ ادارہ ہیومن جسٹس فرنٹ رجسٹرڈ پاکستان اور "بزم سرخیل ادب” کے چیئر مین ہیں ان کے ادارے ” ہیومن جسٙٹس فرنٹ کی جانب سے گزشتہ 20 سال سے اب تک 10 ہزار کے لگ بھگ بے بس ، غریب اور نادار لوگوں کو مفت قانونی امداد فراہم کر کے انصاف دلایا گیا ہے۔ گیلانی صاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے ۔

بڑا بیٹا سید آفتاب سرخیل ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے مینیجر ہیں بیٹی سیدہ نایاب گیلانی صاحبہ چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں وہ. لندن سے اعلی تعلیم حاصل کر چکی ہیں جبکہ چھوٹا بیٹا سید التمش حسن ایک آرمی پبلک اسکول میں زیر تعلیم ہے۔ سید محمود گیلانی صاحب ایف ایم 95 ریڈیو سے بھی منسلک ہیں جس میں وہ پچھلے 13 سال سے ” بابے دینے دا ڈیرہ ” کے عنوان سے ایک پروگرام کر رہے ہیں جبکہ وہ لاہور کے لاء کالج اور مختلف یونیورسٹیوں میں قانون پر لیکچرز بھی دیتے رہتے ہیں مختلف ٹی وی چینلز کے سیریلز میں اداکاری کے جوہر بھی دکھا چکے ہیں۔ گیلانی صاحب کا دفتر ٹرنر روڈ لاہور پر واقع ہے۔ محمود گیلانی نے 7 سال کی عمر سے شاعری شروع کی ان کے ایک کلاس فیلو ناصر بھی شاعری کرتے تھے ۔ شاعری میں محمود گیلانی کے استاد علامہ بشیر رزمی ہیں۔ وہ حمد، نعت، غزل اور ہائیکو کی صنف میں طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ سید محمود گیلانی صاحب موجودہ اردوادب سےمطمئن نہیں ان کے خیال میں پاکستان میں اردو ادب قلم فروش اور ضمیر فروش نام نہاد ادیبوں کے نرغے میں ہے اس لیے عصری تقاضوں کے مطابق صحیح اور معیاری ادب تخلیق نہیں ہو رہا ہے اصل ادیب اور شعراء اپنے معاشی مسائل میں گھرے رہنے کے باعث گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ الیٹرونک اور پرنٹ میڈیا بھی طوائف کا کردار ادا کرتے ہوئے حکمرانوں کی قصیدہ گوئی کرنے والے ادباء اور شعراء کو پروموٹ کر رہا ہے۔ اصل ادباء کو متحد ہو کر نام نہاد ادیبوں اور شعراء کی اجارہ داری کے خاتمے کے لیے بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ محمود گیلانی کی ” بزم سرخیل ادب ” ادبی نشستوں اور مشاعروں کا انعقاد کرتی رہتی ہے اور کم وسائل اور غریب قلمکاروں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی سرگرم عمل ہے ۔ محمود گیلانی کی اب تک 5 کتابیں چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں 1 گل نایاب (حمدیہ اور نعتیہ شاعری پر مشتمل) 2 ۔ اک اور آسمان ( غزلیہ شاعری ) 3 . کچھ تو کہو (غزلیات شاعری). 4 . تجھے لائوں کہاں سے ( شاعری) 5 . تلوار اور ترازو ( مقدمات کی سچی کہانیاں ) جبکہ ان کی کتاب ” میں نے خود کو مرتے دیکھا” زیر طباعت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنسوں کی طرح روز وہ أنکھوں میں رہے گا
وہ شخص ہمیشہ مرے خوابوں میں رہے گا

ممکن تو نہیں گر میں اسے بھول بھی جاٶں
پھر بھی وہ خیالوں مری سوچوں میں رہے گا

اس بزم میں ہوتا ہے سدا تذکرہ اس کا
بس تذکرہ اس کا مری باتوں میں رہے گا

سانسوں میں وہ مچلے گا کبھی جسم کی صورت
وہ جسم کی صورت کبھی سانسوں میں رہے گا

اس شہر حوادٹ میں اگر ٹوٹ بھی جاٶں
اک عکس مرا شہر کے لوگوں میں رہے گا

اس شخص کی پہچان مری ذات سے ہوگی
وہ شخص سدا میرے حوالوں میں رہے گا

Leave a reply