اس بات میں کافی سچائی ہے کہ گزشتہ چند مہینوں سے پاکستان اور خاص کر پنجاب میں جرائم میں واضع کمی آئی ہے،پنجاب میں اس وقت 90 فیصد جرائم میں کمی واقع ہو چکی ہے جس کا کریڈٹ سی سی ڈی کو پنجاب کو جاتا ہے،تاہم یہ بات بھی سو فیصد سچ ہے کہ اس وقت ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان بھی آیا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،معاشرے میں جرائم تب ہی بڑھتے ہیں جب قانون کمزور پڑ جائے اور سزا کا خوف ختم ہو جائے، بے روزگاری، مہنگائی اور تعلیم کی کمی لوگوں کو غلط راستوں پر دھکیل دیتی ہے، اوپر سے رشوت، سفارش اور پولیس و عدالتوں کی کمزور گرفت مجرموں کو کھلی چھٹی دے دیتی ہے،منشیات، گینگ کلچر، اور سوشل میڈیا فراڈ نئی نسل کو تیزی سے جرم کی طرف لے جا رہے ہیں جس کا سدباب بہت ضروری ہے
جب زندگی کی بنیادی ضرورتیں ہی عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور نکل جائیں جیسے کہ آٹا مہنگا ہو جائے گیس غائب رہے بجلی کے بل پہنچ سے دور ہو جائیں اور بجلی کا بلب گھر میں روشنی دینے کی بجائے ایک لمبے چوڑے بل کی مد میں گھر میں قبر جیسی وحشت بپا کر جائے،
نوجوانوں کیلئے روزگار کا کوئی سیدھا راستہ نا ہو تو پھر معاشرہ آہستہ آہستہ سلگنے لگتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے چہروں سے سکون اُڑ جاتا ہے گھروں میں جھنجھلاہٹ اور بے چینی ڈیرے جما لیتی ہے
جب پیٹ خالی ہو اور جیب میں چند روپئے بھی نہ ہو تو انسان کا صبر بھی جواب دے دیتا ہے
پھر وہی ہوتا ہے جو نہیں ہونا چاہئے
ایسے عالم میں چھوٹے موٹے جھگڑے بڑے فساد بن جاتے ہیں اور چوری چکاری بڑھتی ہے تب نوجوانوں کا اعتماد، خواب اور حوصلہ سب کمزور پڑنے لگتے ہیں
جب وڈیرے اور امیر سرعام قانون کی دھجیاں اڑائیں اور جب دل چاہے غریب کو چیونٹی کی طرح روند دیا جائے اور اوپر سے جب کہیں سے انصاف نہ ملے، ادارے بھی اپنی ذمہ داری پوری نہ کریں تو لوگوں کا نظام پر سے یقین اٹھ جاتا ہے جس کی وجہ سے ایک ایسا خلا بنتا ہے جس میں غصہ، مایوسی اور جرائم پلتے ہیں اور پھر چند افراد،اداروں کی نااہلی سے جنت جیسا قطعہ ارض جہنم جیسا روپ دھار لیتا ہے
سو باتیں کر لو، لکھ لو مگر سچ یہی ہے کہ بنیادی ضرورتیں جب مشکل ہو جائیں تو معاشرہ خاموشی سے بیمار ہونے لگتا ہےاور اس کا اثر ہر گھر، ہر گلی، ہر بندے پر پڑتا ہے اور یوں جرائم بڑھنے لگتے ہیں
گورنمنٹ نے سی سی ڈی جیسا ادارہ بنا کر بہت اچھا کیا جس نے فوری رزلٹ دیا تاہم گورنمنٹ کو چائیے کہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے بنے اداروں سے بھی ایسے ہی رزلٹ لیا جائے جیسے سی سی ڈی سے لیا ہے
واضع رہے کہ پنجاب پولیس کی تعداد 2 لاکھ 22 ہزار کے قریب ہے تاہم محض 4300 سی سی ڈی اہلکاروں نے وہ کام کیا جو لاکھوں پنجاب پولیس کے اہلکار نا کر سکے تھے
موجودہ حالات میں غریب کو ریلیف دینا اور شاہی پروٹوکول اور افسری،مراعات کو محدود کرنا وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے،گورنمنٹ تھوڑا سا طریقہ بدلے اور سوتیلی ماں کی بجائے سگی ماں جیسا کردار ادا کرے،ہیلمٹ چالان پر 2 ہزار لینے کی بجائے موٹرسائیکل کے پہلے چالان پر اس موٹرسائیکل کو ایک ہیلمٹ دیا جائے اور اگر پھر بھی اس کے باوجود اسی موٹر سائیکل سے ہیلمٹ نا پہننے کی غلطی ہو تو جرمانہ کیا جائے،گورنمنٹ بجلی کے بلوں میں 200 یونٹ سے اوپر کے استعمال ہونے والے جن لوگوں کو اگلے 6 ماہ کیلئے پھانسی لگاتی ہے اسے ختم کیا جائے،سرکاری و پرائیویٹ سکولوں میں ایک نصاب کیا جائے اور چھوٹے چھوٹے دکانداروں کی بجائے بڑے بڑے ان ڈیلروں کو سرعام چوکوں میں ٹھڈے مارے جائیں جو بلیک مارکیٹنگ کرکے لوگوں کو ضروریات زندگی سے محروم کرتے ہیں،سرکاری ہسپتالوں کو فعال کیا جائے اور عدالتی نظام بہتر کیا جائے،محکمہ عشر و زکوٰۃ کو فعال کرکے ایسا پابند کیا جائے کہ وہ لوگوں کو ان کا حق دیں تاکہ لوگوں این جی اوز سے 500 روپیہ کی ملنے والی امداد کے عیوض اخبارات میں اپنے چہروں کی نمائش نا کروائیں
ایسے کام جب تک نہیں کئے جائنگے جرائم بڑھتے رہیں گے اس لئے گورنمنٹ فوری اقدامات کرے








