میلہ اوچ شریف، روحانیت سے تفریح تک کا سفر
تحریر:حبیب خان (نامہ نگار باغی ٹی وی )
میلہ اوچ شریف ایک ایسا روحانی اجتماع ہے جو برصغیر کی تاریخ میں اہم مقام رکھتا ہے۔ یہ میلہ دراصل ان عظیم اولیائے کرام کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں دین اسلام کی ترویج اور لوگوں کی روحانی رہنمائی کی۔ ان بزرگ ہستیوں میں حضرت جلال الدین سرخ پوش بخاری، حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر اور حضرت عثمان مروندی (لعل شہباز قلندر) شامل ہیں۔ ان اولیائے کرام کی تعلیمات کا مقصد انسانوں کو روحانیت کی طرف متوجہ کرنا، ظلم و جبر سے نجات دلانا اور محبت، امن اور بھائی چارے کا پیغام دینا تھا۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو میں انسانیت کی خدمت اور خدا کی رضا کی تلاش تھی، لیکن افسوس کہ آج میلہ اوچ شریف میں ان کے مقاصد سے ہٹ کر مختلف نوعیت کی سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں۔
حضرت جلال الدین سرخ پوش بخاری، حضرت بہاؤ الدین زکریا، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر اور حضرت عثمان مروندی کی تعلیمات نہ صرف عبادات کے حوالے سے بلکہ معاشرتی اصلاحات پر بھی زور دیتی تھیں۔ ان بزرگوں کا مقصد لوگوں کے دلوں میں خدا کی محبت بٹھانا، انسانوں کے درمیان بھائی چارے کو فروغ دینا اور ظلم و فساد کے خلاف جہاد کرنا تھا۔ ان کا پیغام محبت، اخوت اور انسانیت کی خدمت تھا، جس میں کسی قسم کا لالچ، تشہیر یا دنیاوی مفاد کی جگہ نہ تھی۔
ان بزرگ ہستیوں کی زندگی اور ان کی تعلیمات کے مطابق میلہ اوچ شریف ایک روحانی اجتماع ہونا چاہیے تھا جہاں عقیدت مند اپنے روحانی سفر کو مکمل کرنے اور اپنے عقیدے کو مضبوط کرنے آتے۔ ان کا مقصد لوگوں کے دلوں میں تقویٰ، خشوع اور ایمان کی روشنی بٹھانا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میلہ اوچ شریف کی روحانیت میں کمی واقع ہوئی ہے اور اس میں شامل سرگرمیاں اس کے اصلی مقصد سے بہت دور ہو چکی ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ میلہ اولیائے کرام کی یاد میں ہونا چاہیے تھا، وہاں اب یہ ایک تفریحی اور تجارتی ایونٹ بن چکا ہے۔ تفریحی پروگراموں کی شکل میں فحاشی اور اخلاقی گراوٹ نے اس میلے کی روح کو متاثر کیا ہے۔
آج کے میلے میں ورائٹی شوز، سرکس اور دیگر تفریحی پروگرام شامل ہیں، جہاں عریانی اور فحاشی کا پرچار کیا جاتا ہے۔ رقاصائیں نیم عریاں لباس میں رقص کرتی ہیں اور یہ سب کچھ "تفریح” کے نام پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے پروگرام نہ صرف اولیائے کرام کی تعلیمات سے متصادم ہیں، بلکہ یہ عوامی سطح پر اخلاقی گراوٹ کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ ان سرگرمیوں میں شریک ہونے والے افراد کی دولت کو لٹانا اور ان سے دھوکہ دہی کرنا، اس میلے کے اصل مقصد کے بالکل برعکس ہے۔ یہ سب کچھ اس بات کا غماز ہے کہ میلے میں شریک ہونے والے افراد اور انتظامیہ نے اولیائے کرام کے پیغام کو بھلا دیا ہے اور اس کے بجائے تجارتی مفادات اور عوامی تفریح کے ذریعے پیسہ کمانا شروع کر دیا ہے۔
اولیائے کرام کی تعلیمات میں سب سے اہم پہلو انسانوں کی خدمت اور اللہ کی رضا کی تلاش ہے۔ ان بزرگوں کی زندگی میں عبادت، علم، اخلاقی عظمت اور انسانوں کی مدد کی اہمیت تھی۔ حضرت جلال الدین سرخ پوش بخاری اور حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کی تعلیمات کی بنیاد پر انسانیت کی خدمت اور تقویٰ کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا تھا، لیکن آج جب ہم میلہ اوچ شریف کی صورت حال دیکھتے ہیں تو اس میں ان کی تعلیمات کے برعکس سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔
میلہ اوچ شریف میں اولیائے کرام کی تعلیمات کو یاد رکھنا اور ان کے پیغامات کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔ اس میلے کو دوبارہ اس کی اصل روح میں ڈھالنے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں اخلاقی طور پر صحت مند پروگرامز کا انعقاد کیا جائے، جو لوگوں کو روحانیت کی طرف مائل کریں اور ان کے دلوں میں تقویٰ، ہمت اور محبت کا جذبہ پیدا کریں۔
میلہ اوچ شریف کی سیکیورٹی اور انتظامی تدابیر بھی ایک سنگین مسئلہ ہیں۔ جب اتنے بڑے پیمانے پر لوگ جمع ہوتے ہیں تو ان کے لیے امن و امان کا قیام انتہائی ضروری ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور سیکیورٹی ادارے اضافی نفری تعینات کرتے ہیں، لیکن ان کے اقدامات صرف جرائم کو روکنے کے لیے نہیں بلکہ میلے کی اصلی روح کو بحال کرنے کے لیے بھی ہونے چاہئیں۔ عوامی سطح پر ہونے والی اخلاقی گراوٹ اور جرائم کی روک تھام کے لیے حکومتی اداروں کا کردار بہت اہم ہے۔
میلہ اوچ شریف کی اصلی روح کو واپس لانے کے لیے ضروری ہے کہ میلے کی سرگرمیاں مذہبی، اصلاحی اور ثقافتی پروگرامز تک محدود کی جائیں۔ اولیائے کرام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کو اخلاقی تربیت، روحانی رہنمائی اور تقویٰ کی اہمیت بتائی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی کے انتظامات کو مزید بہتر بنایا جائے تاکہ عوام کو امن و سکون کے ساتھ روحانی ترقی کے مواقع مل سکیں۔