منبر و محراب کا چراغ جو بجھ گیا، ازقلم :غنی محمود قصوری

0
55

منبر و محراب کا چراغ جو بجھ گیا

ازقلم غنی محمود قصوری

موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی مذہب،فرقے گروہ کو انکار نہیں ہر کسی کا ماننا ہے کہ موت برحق ہے اسی لئے اللہ رب العزت نے فرمایا کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہےاللہ کے اسی فرمان سے اسلام کی حقانیت کا دعوی مذید بلند و بالا ہو جاتا ہے انسان و جن ،حشرات و جانورات حتی کہ ہر مخلوق کو موت لازم آتی ہے-

بظاہر تو انسان اپنی موت مر جاتا ہے مگر وہ اپنے اخلاق،اپنے علم،اپنی سخاوت و دیگر اچھے وصف کے باعث اپنی موت کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے جہاں اموات کا سلسلہ جاری ہے وہاں پیدائش کا سلسلہ بھی جاری ہے اور یہ عمل قیامت تک چلے گا-

ایک عالم دین کی موت سے اہلیان علاقہ دینی علم کی نعمت سے وقتی طور پہ محروم ہوتے ہیں جبکہ بہت بڑے عالم دین کی وفات سے بہت زیادہ لوگ محروم ہوتے ہیں اور یہ خلاء پر ہوتے دیر لگتی ہےعلماء دین کی شان بہت بلند ہے کیونکہ قرآن میں فرمان ہے-

اِنَّمَا يَخۡشَى اللّٰهَ مِنۡ عِبَادِهِ الۡعُلَمٰٓؤُا ؕ ترجمہ: بیشک اللہ سے حقیقتاً وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم سے آراستہ ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ العلماء ورثة الأنبياء

یعنی کہ علماء کرام انبیاء کے وارثین ہیں اگر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ انبیاء کرام نے درہم و دینار وراثت میں نہیں چھوڑا بلکہ انہوں نے وراثت میں دین اسلام کا علم چھوڑا ہے جو کہ دنیاوی فائدے کیساتھ اخروی مستقل فائدے کا سبب ہے اور جس نے اس وراثت کو پالیا وہ کامیاب ٹھہرے گا ان شاءاللہ

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک علم اٹھا نہ لیا جائےجبکہ دوسری حدیث میں فرمان ہے اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھاتا کہ بندوں(کے سینوں) سے نکال لے، بلکہ علماء کو موت دے کر علم کو اٹھاتا ہے، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار (مفتی و پیشوا ) بنا لیں گے اور ان سے (دینی مسائل) پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے (خود بھی) گمراہ ہوں گے اور (دوسروں کو بھی) گمراہ کریں گے-

اس حدیث سے اندازہ کریں کہ علمائے کرام کی کس قدر ضرورت بھی ہے اور ان کی عزت بھی عامی انسانوں سے کس قدر زیادہ ہےجب کوئی عالم دین وفات پاتا ہے تو غم تو بہت ہوتا ہے مگر اس غم پہ صبر کرنا چائیے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے –

لَئِنۡ شَكَرۡتُمۡ لَاَزِيۡدَنَّـكُمۡ‌ وَلَئِنۡ كَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِىۡ لَشَدِيۡدٌ‏
ترجمہ: اگر تم شکر گزار رہے تو میں تمہیں بڑھاؤں گا اور اگر تم نے ناشکری کی تو میرا عذاب بھی بڑا سخت ہو گا

اگر ہم حقیقتاً دیکھیں تو ماں باپ کے بعد سب سے اعلی تربیت ایک استاد اور خاص کر عالم دین استاد ہی کر سکتا ہے اور یہی عالم دین انسان کو محدث،مبلغ،مفسر،مجاھد اور داعی بناتا ہے

گزشتہ چند دن قبل 29 مئی 2023 کو پاکستان کے نامور اور بہت بڑے عالم دین حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی کا انتقال ہوا جو کہ پاکستان کے اہل علم اور خاص ہر علماء کے لئے ایک بہت بڑا خلاء چھوڑ گئے کہ جس کو پر ہونے میں وقت لگے گا
حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی رحمتہ اللہ علیہ کی پیدائش اپنے ننھیال میں قصور کی تحصیل پتوکی کے گاؤں گوہر چک میں 27 اگست 1946 کو ہوئی جبکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا آبائی گاؤں بھٹہ محمد تحصیل دیپالپور ضلع اوکاڑہ ہے

1966 میں آپ نے گجرانوالہ سے درس وتدریس کا آغاز کیا اور 1992 میں مرکز طیبہ مریدکے،ضلع شیخوپورہ کی بنیاد رکھی اور اسی مرکز کے بانی و مدیر مقرر کئے گئے اور تا دم مرگ اسی مرکز کے لئے خدمات سرانجام دیتے رہے
اس مرکز سے ہزاروں شاگرد نا صرف اعلی پائے کے عالم بنے ہیں بلکہ بہت اچھے سائنسدان،سیاستدان، صحافی،وکیل،ڈاکٹر و دیگر اہم شعبوں پہ فائز ہوئے ہیں جو کہ حضرت مولانا عبدالسلام بن محمد بھٹوی کے شاگرد ہیں

آپ ملک بھر کے 150 دینی مدارس کے نگران اعلیٰ بھی مقرر تھے مگر اس کے باوجود انتہاء کے عاجز و سادہ مزاج شخصیت کے مالک تھے بندہ ناچیز نے خود ان کو کئی بار دیکھا کہ مریدکے مرکز کے ایک سادہ سے گھر میں اپنے شاگردوں کے علاوہ اہلیان علاقہ و دیگر آنے والے لوگوں کو بڑی عاجزی سے دوائی دیتے تھے اور بار بار بابت دوائی و مسائل کے پوچھنے پہ بھی ہرگز غصہ نا کرتے تھے بلکہ بڑے پیار سے سمجھاتے تھے-

آپ حکمت سے پیسے نا کماتے بلکہ گی سبیل اللہ دوائی دیتے تھے بسا اوقات ملک کے دیگر حصوں سے بھی لوگ ان سے دوائی لینے آتے تھے حکمت کے ساتھ ہومیو پیتھک طریقہ علاج پہ بھی ان کو عبور حاصل تھا –

آپ نے حکمت کی اعلی ڈگری فاضل نظریہ مفردات حاصل کی اور طب پہ عبور حاصل ہونے کے باوجود درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور درجنوں کتب لکھیں جن میں تفسیر القران ،بلوغ المرام،ترجمہ حصن المسلم ،ہم جہاد کیوں کرتے ہیں،اور مسلمانوں کو کافر قرار دینے کا فتنہ، بڑی اہم کتب ہیں جن کو ہر مسلک کے لوگ پڑھتے ہیں-

حضرت بھٹوی صاحب کی یہ خوبی بڑی اہم تھی کہ آپ تمام مسالک کو قریب کرتے تھے نا کہ ایک دوسرے پہ کفر و ارتداد کے فتوے لگاتے تھےاسی لئے تمام مسالک کے لوگ اور بلخصوص علماء کرام ان کی خاص عزت کرتے تھے –

حضرت عبدالسلام بھٹوی رحمتہ اللہ علیہ 2019 سے مجاھدین کی مالی معاونت کے الزام میں شیخوپورہ جیل کے زیر سایہ حراست میں قید کاٹ رہے تھے اور اسی دوران بخاری کی شرح بھی لکھ رہے تھے کہ خالق حقیقی کے بلاوے پہ دار فانی کوچ کر گئے،اناللہ واناالیہ راجعون اللھم اغفرلہ و ارحمہ آمین

ان کی وفات سے ایک بہت بڑا خلاء پیدا ہو گیا جو کہ وقت کے ساتھ بھر جائے گا انبیاء کے ورث حضرت بھٹوی رحمتہ اللہ علیہ نے کوئی جاگیر تو نہیں چھوڑی مگر علم کی صورت میں ہزاروں جید علمائے دین کی وراثت چھوڑی ہے ،شیخ الحدیث،مفسر قران و حدیث،مفکر اسلام اور مجاھدین کے استاد حضرت عبدالسلام بن محمد بھٹوی کا شمار اس صدی کے بڑے بڑے علماء میں ہوتا ہے، کہ جن کے ہزاروں جید عالم دین شاگرد ہیں آپ کے شاگردوں کے شاگرد اس وقت جید عالم دین ہیں-

دعا ہے کہ جس طرح حضرت حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی نے دین اسلام کی خدمت کی ایسے ہی اللہ تعالی ان کی اولاد اور ان کے شاگردوں کو بھی دین اسلام کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ایک نظم کیساتھ اختتام تحریر کرتا ہوں یہ نظم غالباً 1991 کو شائع ہوئی تھی

اپنے ارمان تو اس وقت ہی پورے ہونگے
خلد میں جب کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ہو گی

رات دن گر اپنے ہی درپے آزاد رہیں
غیر کو کب کسی تکلیف کی حاجت ہوگی؟

مشکلیں ڈال کے تو نے در رحمت کھولا
کیا خبر تھی تیری مشکل بھی عنایت ہو گی

ہر محلے میں کوئی صدر کوئی ناظم ھے
سرخرو کیسے خلافت سے جماعت ہو گی؟

بےبس و عاجز و مجبور کو داتا کہنا
اس سے بڑھ کر بھی بھلا کوئی ضلالت ھو گی؟

بھیک غیروں سے حفاظت کی جو مانگیں ہر دم

ایسے اشراف کی کیا خاک کرامت ہو گی؟؟

نوجوان شوق شہادت سے ہیں سرشار مگر

منتظر ہیں کہ بزرگوں سے اجازت ہو گی

وضع و صورت ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمہیں منظور نہیں
کون سے منہ سے تمنائے شفاعت ہو گی؟

جب فقیہانِ وطن سود کی تلقین کریں
منتظر رہیے کہ جلد قیامت ہو گی

بار سب جس سے گناہوں کے اتر جاتے ہیں
میری قسمت میں بھی یارب وہ شہادت ہو گی

نقش حرمین نگاہوں میں بسا رہتا ہے
تیری رحمت سے ہی آئندہ زیارت ہو گی

اپنے ارمان تو اس وقت ہی پورے ہونگے
خلد میں جب کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ہو گی

Leave a reply