کراچی کے مسائل سیاسی بھی ہیں اور شہری بھی۔ سیاسی مسائل تو انتہائی تشویش ناک حالت کے حامل ہیں لیکن شہری مسائل اگر ارباب اقتدار چاہیں اور نیک نیتی سے اقدامات اٹھائیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ کراچی پہلے جیسا صاف سُتھرا شہر بن جائے روشنیوں کا شہر بن جائے، جب ٹریفک قوانین پرسختی سے عمل درآمد کرایا جاتا تھا۔ ایسا نہیں کہ کراچی جنت تھا ہاں، جنت نشان ضرور تھا۔ لوگوں میں خرابیاں تو تھیں، مگر اُنہیں دور کرنے کا شعُور و اِرادہ بھی تھا۔ آج کی طرح ٹریفک کا اژدھام نہیں تھا۔ نصف گھنٹے کا سفر ڈیڑھ سے تین گھنٹے میں مکمل نہیں ہوتا تھا۔ شہر میں باقاعدہ پبلک ٹرانسپورٹ کے علاوہ لوکل ٹرین اور ٹرام بھی چلتی تھی۔ ٹرانسپورٹ مافیا غائب تھی۔ طوفان بدتمیزی کی طرح سڑکوں پر دندناتی منی بسیں، کوچز، چنگچیاں، پریشر ہارن نہ تھے، مسافروں سے بدسلوکی تو حالیہ برسوں کی وجہ ہے جو کراچی کو لاوارث چھوڑ رکھا ہے۔ اگر شہری مسائل حل کر دیئے جائیں تو کراچی پھر عالمی سطح پر اپنا مقام واپس حاصل کر سکتا ہے۔ یہاں بات آجاتی ہے ریاست کی کہ جو شہر ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتا ہو اُسے کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے، عمران خان صاحب کی حکومت کو اب خیبرپختون خواہ، پنجاب، کشمیر، بلوچستان، گلگت میں اکثریت حاصل ہے تو اب سندھ کی طرف توجہ دیں کراچی سمیت سندھ کی مظلوم عوام کو بھی جینے کا اُتنا ہی حق ہے جتنا پاکستان کے باقی صوبوں کے لوگ حق رکھتے ہیں تو پھر یہ نظر اندازی کس لئے کیا کراچی کو چند سیاست دانوں نے اپنی جاگیر نہیں بنا رکھا۔؟ اگر ریاستی اِدارے اُنہیں اپنا قبلہ درُست کرنے کا کہیں تو بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ ہم تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔
ریاست اگر چاہے تو کیا نہیں کر سکتی ریاست کیا اِن چند سیاستدانوں کے ہاتھوں یرغمال بنی رہے گی۔؟ کیا کراچی اور سندھ کی عوام اِنسان نہیں بھیڑ بکریاں ہیں۔؟ کیا وہ جینے کا حق نہیں رکھتے۔؟ کیا کراچی اور سندھ کی عوام کو صحت کی سہُولیات کی ضرورت نہیں ہے۔۔؟ آج پورے پاکستان میں ہسپتالوں میں سب سے بُری حالت سندھ اور کراچی کے ہسپتالوں کی ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔
کیا اب بھی پیپلزپارٹی کے وہی 70 سال اور 80 سال کی عمر والے اِس ملک کے 65 فیصد نوجوانوں کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔۔؟ جو خُود لاکھوں روپے کی تنخواہوں کا بل تو سندھ اسمبلی سے پاس کروالیتے ہیں مگر عوام کا کوئی خیال نہیں جو ہر الیکشن میں اپنی الیکشن کمپیئن تو کروڑوں روپے خرچ کر کے جیت جاتے ہیں مگر عوام کو صرف سانس لینے تک رکھ چھوڑا ہے کیا کراچی سمیت سندھ کی سڑکیں اِن کا مُنہ نہیں چڑاتیں ۔۔۔۔ کیسے چڑاسکتی ہیں یہ بے ضمیر لوگ اب اپنی انتہا کو پہنچ چُکے ہیں اب اِن کو قابو کرنے کا وقت ہے اِنہیں لگام ڈالنے کا وقت ہے۔
وزیراعظم جناب عمران خان صاحب نے احتساب کا جو نعرہ بلند کیا تھا اب اُسے حقیقی طور اُس پرعملدرآمد کرنے کا وقت ہے، اب کراچی سمیت پورے سندھ کے کئی سالوں سے لہو رستے زخموں پر مرہم رکھنے کا وقت ہے خُدارا ہوش کے ناخُن لیں اِن کرپٹ ٹولیوں سے آزاد کروائیں سندھ کی عوام آپ کی طرف دیکھ رہی ہے اب کراچی کو گود لے لیں یا کم سے کم کراچی کو وفاق کے حوالے کر دیں جہاں اگر بارش ہی ہو جائے تو زندگی کسی عزاب سے کم نہیں ہوتی۔
آج کراچی میں کوئی محلہ ایسا نہیں ہے، جہاں سڑکیں سلامت ہوں، نئی کراچی، نارتھ کراچی، نارتھ ناظم آباد، گلشن اقبال، فیڈرل بی ایریا، لیاقت آباد سے کلفٹن تک کے راستوں اور سڑکوں کی حالت بیان کرنا مشکل نہیں یہ پورا ملک جانتا ہے تو کیا حکومت کو علم نہیں ہوگا۔۔؟ کوئی علاقہ کوئی محلہ ایسا نہیں ہے جہاں گٹر نہ ابل رہے ہوں اور ملبہ، کیچڑ اور تعفُن نے شہر کو بدصُورت نہ بنا رکھا ہو۔ بس ہلکی سی بارش ہونے کی دیر ہےیہ خُوب صُورت شہر لاوارث محسوس ہونے لگتا ہے۔ اور اگر پاک فوج مدد کو آجائے تو یہی سیاستدان پاک فوج پر بہتان لگانے اور اُنگلی اُٹھانے لگتے ہیں کہ یہ کام اِن کا نہیں یہ بارڈر پر جائیں اور بے شرموں کی طرح دُشمنوں کی طرح اُن کی زبان بووزراء اور ذمہ داروں کواس سے کچھ غرض نہیں، کراچی کی عوام روتی رہے، سسکتی رہے۔ ہماری بیوروکریسی آنکھیں بند کئے صرف اپنی غرض جو صرف اُن کی لاکھوں روپے میں تنخواہ ہے بس وہیں تک محدود ہے۔ جہاں ضروریاتِ زندگی کی سہولیات تو ہیں ہی نہیں پھر روزگار کا مسلہ ہے جسے سرکاری ملازمتوں میں بھی تعصب اتنا ہے کے ڈومیسائل کا ایشو بنا دیا جاتا ہے یہ سب کیوں ہے کیا یہ جان بوجھ کر نہیں کیا جا رہا۔۔۔! کیا یہ اقدامات ریاست مخالف نہیں ہیں۔؟ کیا لوگوں کو سندھ حکومت خُود تقسیم کر رہی ہے۔۔؟
اِس بیرونی ایجنڈے کو سندھ حکومت اپنے ہی سندھ میں بسنے والے بشمول کراچی کے لوگوں میں منافرت پھیلانے کا کام کرتے ہُوئے دشمن ایجنڈے کو پروان چڑھانے کی ناکام کوشش جاری رکھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ اِن موجودہ حالات کو سنجیدگی سے لیا جائے یہاں کبھی سندھو دیش تو کبھی جناح پور کا نعرہ بلند کرنا کیا یہ لوگوں کی ذہن سازی نہیں کی جا رہی جب پاکستان ترقی کی نئی راہوں پر گامزن ہے وہیں ایسے چُھپے دشمنوں کا صفایا کرنا بھی لازم ہے۔میں نے اللہ کو جان دینی ہے یہ جو کراچی میں ہر روز نیا سیلاب آجاتا ہے اور کراچی کے لوگوں کو اتنا ذلیل و رُسوا کیا جا رہا ہے بلکہ یوں کہیں کے تنگ کیا جا رہا ہے کہ کراچی کی عوام کے خلاف شدید نفرت بھری جا رہی ہے اور کئی ہزار گُنا شدید نفرت پیدا ہو جائے۔ یہ سب ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے اِس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ملک کا سب سے زیادہ کمائی کرنے والا شہر 70 فیصد سے زیادہ ملک کو ٹیکس دینے والا شہرپاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا شہر کراچی اِس طرح بے آبرو ہو؟
اِس طرح رُسوا ہو؟ اُس کے شہریوں کو اِتنا ذلیل کیا جائے تنگ کیا جائے کے وہ ملک سے بغاوت کرنے پر تُل جائیں۔۔۔!
آپ کو یاد ہو گا فاروق ستارہر کچھ دن بعد ایک ہی بات کہا کرتا تھا کے کراچی میں یو این او کی فوجیں بلوا کر انتخابات کروائے جائیں اور بھی کچھ وزراء تھے وہ بھی کہا کرتے تھے اور اب بھی حکومت میں کچھ وزراء شامل ہیں جو یہی بات کہا کرتے تھے۔ یہ باقائدہ ایک پلان بنایا گیا تھا کے 2020 تک کراچی کو پاکستان سے علحدہ کیا جائے گا اور اِس میں کئی غیر ملکی ایجنسیز شامل تھیں اور پیپلز پارٹی ساتھ ملی ہُوئی تھی اور اب بھی یہ ایک ہی ہیں۔ جبکہ پاکستان کی گورنمنٹ کا پلان تھا کے کراچی کو ہانگ کانگ بنانا ہے حکومت نے جو کے اِن ظالموں نے وہ نہیں بننے دیا اور کراچی کے حالات مل کر خراب کرتے رہے۔ یہ سب ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے یہ بات آپ ذہن میں اچھی طرح بٹھا لیں۔ اب یہ جو سیلاب اب ہر بارشوں کے سیزن میں کراچی میں آتا ہے یہ پانی جو کراچی کی دکانوں میں کارخانوں میں فیکٹریوں میں ہر چیز کو تباہ و برباد کر رہا ہے اور اربوں روپے کی جو تیار اشیاء ہیں جو بکنے والی پراڈکٹس ہیں سب برباد ہو رہی ہیں سب پانی میں ڈوب جاتاہے، لوگوں کی گاڑیاں ڈب جاتی ہیں ، یہ سب سوچی سمجھی سازش ہے کے لوگوں میں بغاوت پیدا ہو لوگ خُود کو لاوارث سمجھیں۔ اب پھر بارشوں کا سیزن آنے والا ہے مون سُون کی بارشیں سر پر کھڑی ہیں اب تو ہوش کرلیں کراچی اور سندھی کی عوام ہمارے ہی بھائی ہیں ہمارے ہی جسم کا حصہ ہیں اُن کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنائیں یہ ریاست کے تھنک ٹیک پر لازم ہے کے اِس طرف خصوصی توجہ دی جائے۔
آپ ایک ہزار سال کا کراچی کا ریکارڈ چیک کر لیں کبھی ایسی بارشیں نہیں ہُوئی ں جیسی پچھلے دو تین سال سے ہو رہی ہیں۔ پہلے کراچی میں اگر بارش ہوتی تھی پانی کھڑا ہوتا تھا نکل جاتا تھا مگر اب یہ جنگی حالت ہے یہ باریاں لینے والی پارٹیوں نے بطورِ خاص پچھلے بیس سالوں میں اپنی پلاننگ کہ تحت بڑے بڑے نالے بند کروائے انکروچمنٹ کروا کر مٹی ڈالی نالوں کو تنگ کیا اُوپر مکان بنا لئے غریبوں کو دے دیئے پانی نکلنے کے تمام بڑے راستے بند کر دیئے۔ ریلوے کی ساری ذمینیں بھی ایسے ہی غائب کی گئیں کراچی کی زمین بانٹی گئی، یہ سب ایک پلاننگ کا حصہ تھا اُن دشمن قوتوں کا پلان چل رہا تھا جو کراچی کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتی تھیں یہ سب اُن کا کنٹرول تھا اور یہاں کی حکومتیں اپنا مال بنانے کے لئے ضمیر بیچتے رہے ہیں وطن فروش بنے رہے اِن ملک دُشمنوں نے 20 سال لگائے ہیں بہت ہی معصومیت کے ساتھ یہ کام ہوتا رہا اور کراچی کی عوام بیوقوفوں کی طرح منہ اُٹھا کر اپنے حقوق کی جو ٹرک کی بتی اِن سیاہ ستدانوں نے اِنہیں دکھائی اُس کے پیچھے بھاگتے رہے آج انجام ہمارے سامنے ہے پاکستانیو میرے ہم وطنوں میرے سندھی اور کراچی کے بھائی بہنوں ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ اِس ففتھ جنریشن وار کو مزاق مت سمجھو کہنے کو یہ مزاق کی بات لگتی ہے "دیوانے کا خواب لگتا ہے "یہ نا ہو کے پانی ہمارے سر سے اُوپر ہو جائے اور پاؤں کے نیچے سے زمین بھی سرک جائے۔ بات بہت لمبی ہو گئی میں صرف اب حکومت سے کہتا ہوں کے ملک کی خاطر کراچی کو بچانے کی خاطر پاکستان کی سلامتی کی خاطر ایک ہی حل ہے کے کراچی کو جلد سے جلد اپنے اختیار کنٹرول میں لے سندھ حکومت نے پچھلے 74 سالوں میں کچھ نہیں کیا تو اب اُن سے کیسی اُمید بس اب اور نہیں اب کراچی کو جینے دو سندھ کو جینے دو اور یہ صرف یا تو ریاست خُود کر سکتی ہے یا فوج کو کراچی کا مکمل اختیار سونپ دیا جائے ۔
جزاک اللہ خیراً کثیرا
پاکستان پائندہ باد
@A2Khizar