میرا تن من نیلو نیل ! تحریر:ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

dr tahira

مغل پورہ لاہور میں قتل ہونے والی انیقہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آچکی ہے ۔ سر سے پاؤں تک جسم مضروب ہے ۔ پڑھ کر دل دہل جاتا ہے کہ مرنے سے پہلے ہی انیقہ کا جسم بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکا تھا ۔
چکوال میں مرنے والی پروین کا جسم ضربات کی شدت سے نیلا اور پانی میں رہنے کی وجہ سے پھول چکا تھا ۔
بھائی کے ہاتھوں تکیہ منہ پہ رکھ کر مرنے والی ارم کی زبان پھول کر منہ سے باہر نکل آئی تھی ۔
ڈاکٹر سدرہ کا بھیجا کھوپڑی میں گولی لگنے کی وجہ سے سوراخ سے باہر بہہ نکلا تھا ۔
ڈسکہ میں سسرال کے ہاتھوں مرنے والی زارا کا سر کہیں تھا ، ہاتھ اور پاؤں کہیں ۔ ہر ٹکڑا چھرے سے کاٹ کر علیحدہ کیا گیا تھا ۔
ملتان میں پنکھے سے لٹکائی جانے والی بیٹی کا جسم تو مضروب تھا ہی گلا بھی دوپٹے کے نشان سے نیلا پڑ چکا تھا ۔
گجرات میں ڈنڈے کی شدید ضربات سے حاملہ بیوی کی سب ہڈیاں چکنا چور تھیں ۔ وجہ بیوی کے پیٹ میں بچی کا موجود ہونا تھا ۔

یہ کچھ عورتیں ہیں جن کا قتل منظر عام پہ آیا ۔ نہ جانے ان جیسی کتنی گمنام رہتے ہوئے لحد میں اتر گئیں اور کوئی جان ہی نہ سکا کہ ان کے جسم کہاں کہاں سے لہولہان ہوئے ۔
پھر ہم سے سوال پوچھا جاتا ہے کہ ایک آدھ کیس ہو جاتا ہے اور آپ تمام مرد برادری کو ذمہ دار کیوں ٹھہراتی ہیں ؟ کیا نیک فطرت مردوں کا کال پڑ گیا ؟
ہم تلخ ہنسی ہنستے ہوئے کہتے ہیں ، بےشک سب مرد ایسے نہیں ہوتے مگر ہر بار ایک مرد ہی تو ہوتا ہے ۔
لیکن ہمارا بھی ایک سوال ہے ؟
ہمیں پوچھنا ہے سب مردوں سے کہ گھریلو تشدد کے سلسلے میں وہ لکیر کے کس طرف کھڑے ہیں ؟ مخالفت ؟ موافقت ؟
اگر آپ گھریلو تشدد کے مخالفین میں سے ہیں تو آپ اس کے خاتمے کے لیے کیا سوچتے ہیں ؟ آپ کا کردار اس میں کیا ہونا چاہیے ؟
اور اگر آپ گھریلو تشدد کے حق میں ہیں تو کیا کبھی تجربہ کرنا چاہیں گے کہ جسم پہ ایک بھی ضرب لگے تو جسم کا کیا حال ہوتا ہے ؟ آپ اس کو جسٹفائی کیسے کرتے ہیں ؟ اگر آپ کی بیٹی اور بہن اس کا شکار بنیں تب آپ کا ردعمل کیا ہو گا ؟ کیا آپ کو دوسرے انسانوں پہ ہوتا ظلم مضطرب نہیں کرتا ؟
اور اگر آپ نہ مخالف ہیں نہ موافق اور اس قضیے سے لاتعلق رہتے ہوئے ایک طرف ہو کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو تب آپ منافقین میں گنے جائیں گے کیونکہ ہر زندہ روح کی ایک رائے ، کردار اور فرض ہوتا ہے جو معاشرے کی بقا کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔
آپ کو جاننا چاہیے کہ یہ مسلہ مرد و عورت کا ہے ہی نہیں ، یہ طاقت اور اس کے استعمال سے حاصل ہونے والی اتھارٹی کی بھوک ہے جو اپنے سے کمزور کو گھائل کر کے اپنے دانت تیز کرتی ہے ۔ معاشرے میں عورت کمزور ترین طبقہ ہے جس کے گرد شکنجہ کسنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی ۔ عورت کا قتل معاشرے کے گدلے جوہڑ میں کچھ دن کے لیے ارتعاش پیدا کرتا ہے اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے جب تک ایک اور نہ ماری جائے ۔
انصاف کی تلاش میں ورثا عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ۔ تاریخ پہ تاریخ پڑتی ہے ، ضمانتیں ہوتی ہیں اور فائلیں شب وروز کی گرد
دبتی چلی جاتیں ہیں ۔ نہ قانون بدلتا ہے نہ لوگ بدلتے ہیں اور نہ ہی ریاست عورتوں کے سر پہ دست شفقت رکھنے کو تیار ہوتی ہے ۔
حل کیا ہے ؟
معاشرے کا ہر فرد اس کے متعلق نہ صرف آگہی رکھے بلکہ اس کو انتہائی برا سمجھتے ہوئے اس کے خلاف آواز اُٹھائے ۔ آوازوں کا قافلہ بنے جو نہ صرف دھرتی کو ہلائے بلکہ آسمان میں بھی شگاف ڈال دے ۔ یہ وقت کی ضرورت ہے ، انسانیت کا تقاضا ہے کہ عدم سے آنے والی روحوں کو کسی خانے میں تقسیم نہ کیا جائے اور طاقتور جسم ، کمزور جسم کو ملیامیٹ کرنے کی خواہش سے باز رہے ۔
دنیا تب ہی گلزار ہو گی !

Comments are closed.