میں اپنے حسن کی بھی نمائش نہ کر سکی
میرا ضمیر درس حیا دے گیا مجھے

بشریٰ سحر

شاہدہ بشریٰ سحر 06 اگست 1972ء کولکاتا(ہندستان) میں پیدا ہوئیں تصنیف:نمودِ سحر (مجموعۂ کلام)2019 ہندوستان اور باہر کے کئی ممالک میں تخلیقات شائع ہوتی ہیں علاوہ ازیں مشاعروں میں شرکت ، ہوڑہ رائٹرز ایسوسی ایشن سے 22 مارچ کو ملنا تھا لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے پروگرام ملتوی ہوگیا۔
منصب
۔۔۔۔۔
۔ (1)سکریٹری نشر و اشاعت
بزمِ نثار، کولکاتا
۔ (2)سکریٹری نشر و شاعت
صوفی جمیل اختر لٹریری سوسائٹی، کولکاتا
ممبر شپ:
۔۔۔۔۔
۔ (1)بزمِ نثار، کولکاتا
۔ (2)صوفی جمیل اختر لٹریری سوسائٹی، کولکاتا
۔ (3)ہوڑہ رائٹرز ایسوسی ایشن
پتا: 46 /1 /ایچ /15 ،گورا چاند روڈ
کولکاتا 14

معروف شاعرہ شاہدہ بشریٰ سحر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کا شعری مجموعہ ’نمودِ سحر‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مظفر نازنین ، کولکاتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہر نشاط کولکاتا ہندستان کی ایک معروف میٹرو پولیٹن سٹی ہے۔ اپنے اس شہر کی خاصیت بالکل مختلف ، منفرد اور جداگانہ ہے۔ اخلاق رواداری، مخلصانہ تہذیب، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، قومی یکجہتی یہاں کا طرّہ امتیاز ہے۔ شہر نشاط کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں اردو بنگلہ کے معروف شاعر اور شاعرات نے جنم لیے۔ شعرا اور ادبا جو یہاں پیدا ہوئے بیشتر عالمی شہرت یافتہ ہے-

یہ حقیقت ہے کہ کامیابی کی منزل کو طے کرنے میں لڑکیوں کو لڑکوں کی بہ نسبت زیادہ مشکلوں اور صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس شہر میں شاہدہ بشریٰ سحر نے جنم لیا۔ جن کا پہلا شعری مجموعہ 152 صفحات پر مشتمل ”نمودِ سحر“ کی اشاعت 2019 میں مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے تحت ہوئی ہے جس کو وہ اپنے والد محترم شمیم الہدیٰ مرحوم اور اپنی والدہ محترمہ صادقہ شمیم مرحومہ کے نام اپنے ایک شعر کے ساتھ منسوب کرتی ہیں۔
اولاد سے ماں باپ کا رشتہ جو ہے قائم
اس رشتے سے رشتہ کوئی بڑھ کر نہیں ہوتا

غزل کی تعریف کرتے ہوئے محترمہ شاہدہ بشریٰ سحر کہتی ہےں ”اردو شاعر میں غزل ایک مقبول صنف ہے جو شاعر اور شاعر نواز دونوں کی ادبی تسکین کا وسیلہ بنتی ہے۔ شاعری اس فن کا نام ہے جس میں گرد و پیش کے تمام حالات سے شاعر کو سابقہ پڑتا ہے۔ جن کو وقتاً فوقتاً محسوس کرتے ہوئے قلم کے ذریعہ سپرد قرطاس کرکے محفوظ کیا ہے۔ شاہدہ بشریٰ سحر ایک خدا ترس خاتون ہیں جو ہمیشہ تقدیر پر شاکر رہتی ہےں۔ موصوفہ کی شادی 1994ءمیں ہوئی اور 2010 میں شریک حیات نے داعی اجل کو لبیک کہا یعنی 16 سال کی قلیل مدت میں جب شوہر کا انتقال ہوچکا۔ بچے چھوٹے ہوں تو اس مشکل دور کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے یعنی یہ صاف شیشے کی مانند عیاں ہے کہ ذرہ سے آفتاب کا سفر طے کرنے میں شاہدہ بشریٰ کو صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں اور بہت مشکل دور سے گزرنا پڑا۔ شاعر کا ایک شعر ہے جو بشریٰ سحر پرصادق آتا ہے۔
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد
سرخرو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد

محترمہ شاہدہ بشریٰ سحر نے تمام پریشانیوں کے باوجود یکسوئی سے اپنا تعلیمی سفر شروع کیا اور ثابت قدمی کے ساتھ منزل کی جانب گامزن رہےں۔ حوصلہ انسان کو جہد مسلسل اور عمل پیہم کا پیغام دیتا ہے۔شاہدہ بشریٰ سحر کی ایسے دور میں ملاقات ڈاکٹر نعیم انیس سے ہوئی۔ جو ان کے استاد بھی رہ چکے ہیں وہ کہتی ہیں انہوں نے مجھے دوبارہ پڑھنے کےلئے کہا اور ہماری امی نے بھی حوصلہ دیا تو میں نے اس راہ پر قدم بڑھایا اور ایم اے کی ڈگری حاصل کرلی۔ سچی لگن، انتھک کوشش ہو تو خدا بھی ساتھ دیتا ہے۔ اس سے قبل کلکتہ کے صاحب دیوان شاعر محترم حلیم صابر سے بھی اصلاح لی۔ انہوں نے مطالعہ کرنے کی نصیحت کی۔ اس طرح کئی اساتذہ ملتے گئے اور ان کی رہنمائی موصوفہ کےلئے مشعل راہ ثابت ہوئی۔ چند غزلوں پر حضرت قیصر شمیم سے بھی اصلاح لی ۔ اس کے بعد کے دور میں مشہور شاعر ضمیر یوسف نے بھی ادبی رہنمائی کی اور اب باقاعدہ طور پر محترم حلیم صابر سے اصلاح لیتی ہےں اور ان کی احسان مند ہیں جنہوں نے شاعری کے میدان میں کھڑا ہونا سکھایا ہے۔ زیر نظر کتاب ”نمود سحر“ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اشرف احمد جعفری نے بھی ان کا پورا پورا ساتھ دیا ہے۔

حمد باری تعالیٰ کے کچھ اشعار ملاحظہ کریں
تیرے بندے بھٹک نہیں سکتے
ظلمت زیست میں ضیاءتو ہے
نعت سرور کونین کے چند اشعار ہیں جس سے وہ خوبصورت روح پرور نظارہ آنکھوں کے سامنے آجا تا ہے
نبی کے نام سے حاصل سکوں ہو قلب مضطر کو
خدا کا نام لوں تو ذہن و دل بیدار ہوجائے
اگر آب کرم کا ایک قطرہ ہو عطا آقا
تو یہ تپتی ہوئی ہستی مری گلزار ہوجائے
بسالوں گنبد خضریٰ سحر میں اپنی آنکھوں سے
اگر شہر مدینہ کا مجھے دیدار ہوجائے
علم و ہنر کی اہمیت کے تعلق سے موصوفہ کی غزل کے خوبصورت اشعار ملاحظہ کریں
عزت کے ساتھ گزرے گی اس کی ہی زندگی
جو زندگی گزارے گا علم و ہنر کے ساتھ
جب بھی اپنے لئے دعا کیجیے
مجھ کو بھی یاد کر لیا کیجیے
جس کے عیبوں کا تذکرہ کیجیے
آئینہ سامنے رکھا کیجیے
غیر کی عیب جوئی سے پہلے
خود پہ بھی اک نظر کیا کیجئے
شاعر اسے خوبصورت انداز میں اس طرح کہتا ہے
نظر پڑتی نہیں اس کی کبھی اپنے گریباں پر
وہ ظالم مسکراتا ہے مرے حالِ پریشاں پر
یہ شعر ملاحظہ کریں
عہد ماضی کے جھرونکوں سے جو جھانکا میں نے
زلزلے آئے مرے قلب کے اندر کتنے
بلاشبہ ماضی ایک یاد ہے۔ ماضی ایک تجربہ ہے اور ماضی ایک سبق ہے۔ کسی شاعر نے ماضی کے تعلق سے یوں کہا ہے
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
شاہدہ بشریٰ سحر کے دل میں خوفِ خدا ہے اور ماشاءاللہ کافی دیندار ، سنجیدہ طبیعت کی مالک ہےں جس کا ذکر انہوں نے اس شعر سے کیا ہے
خدا اگر ہمارے دلوں میں نہ رہتا
تو ہم سے خدا کی عبادت نہ ہوتی
ایک عظیم شخصیت ہمیشہ ہی چاہتی ہے کہ اس کی شخصیت سے دوسروں کو فیض پہنچے۔ بقول شاعر
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹاتا ہے
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
اس خوبصورت شعر کو شاہدہ بشریٰ سحر اپنے طور پر یوں کہتی ہوئی نظر آتی ہے۔
میں ہوں وہ شمع کہ جس گھر میں جلاؤگے مجھے
نور سے اپنے میں روشن اسے کر جاؤں گی
عیب جوئی کرنا یا غیبت کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ شاہدہ بشریٰ سحر اس کا اعتراف کرتے ہوئے یہ شعر رقم کرتی ہے۔
غیر کی عیب جوئی سے پہلے
خود پہ بھی اک نظر کیا کیجئے
ماضی میں کسی شاعر نے اس جذبے کو مندرجہ ذیل شعر میں رقم کیا تھا۔
نظر پڑتی نہیں اس کی کبھی اپنے گریباں پر
وہ ظالم مسکراتا ہے میرے حال پریشاں پر
بشری سحر خدا کی وحدانیت کے تعلق سے مندرجہ ذیل شعر رقم کرتی ہیں
سجدہ خدا کو کرنا ہے یہ جان لے سحر
اس کے سوا کسی کو نہ سجدہ کریں گے ہم
اور پھر خدا سے لَو لگاتی ہیں اور خدا کی ذات سے امید رکھے ہوئی ہےں۔
اللہ کے دامن سے لپٹ جاؤ سحر تم
اور اس کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے
آج بشریٰ سحر شہر نشاط کے مشاعرے میں شرکت کرتی ہیں بلکہ عالمی مشاعرے میں بھی جلوہ افروز ہوتی ہےں۔ اپنی اس کامیابی کو اپنے والدین کی دعاؤں کا اثر سمجھتی ہیں جو یوں بیان کرتی ہیں۔
ماں باپ کی دعا نے سحر حوصلہ دیا
قدموں کو میں نے پیچھے ہٹایا نہیں کبھی
ان کا ذہن حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے جس کا اظہار اس شعر سے کرتی ہیں
وطن پہ جاں لٹاتے ہیں
اسے سجدہ نہیں کرتے
اپنی منزل کی جانب گامزن اور رواں دواں رہتی ہیں۔ پوری مستعدی، تہذیبی اور ثابت قدمی کے ساتھ منزل کو پانے کی کوشش کی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا تھا
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
بشریٰ سحر کے خوبصورت شعر اس ضمن میں ملاحظہ کریں
منزل کی سمت اکیلے رواں ہم بھی کیا ہوئے
تنہا تھے رفتہ رفتہ مگر قافلہ ہوئے
آج کے دور میں جب وطن عزیز نےCovid-19 Pandemic اور Lock Door کے زیر اثر ہے۔ اس درد و کرب کے ماحول اور غم و الم کے سماں کو شاعرہ کی حساس ذہنیت اور دور اندیش نظریں دیکھتی ہےں اور یہ شعر رقم کرتی ہیں۔
ہر شخص کرب ذات میں لپٹا ہوا ہے آج
ہے کون جو جہاں میں اسیر الم نہیں
دولت مند اور سرمایہ دارانہ نظام کےلئے شاہدہ بشریٰ سحر ایک طنزیہ شعر کہتی ہیں۔
نہ جانے کون سا جادو ہے مال و دولت میں
کہ مال داروں کو دنیا سلام کرتی ہے
سنہرے ماضی میں ہندستان کے نامور شاعر جن کی زندگی درد و کرب مصائب و آلام سے لبریز ہے ، یوں کہا تھا
تو امیر شہر ستمگراں – میں گدائے کوچہ عاشقاں
تو امیر ہے تو بتا مجھے – میں غریب ہوں تو برا ہے کیا
موصوفہ کی شخصیت پختہ وعدہ کرنے کی ہے۔ وعدہ کیا تو وفا کی۔ اس سے کبھی فکریں نہیں
ذلیل و خوار نہ کیوں کر ہو ایسی شخصیت
جو وعدہ کرتی ہے وعدہ سے پھر مکرتی ہے
میری فطرت میں ہے شامل یہ صفت
وعدہ کرکے نہ مکرنا آیا
کامیابی اسی کے قدم چومتی ہے جو شدید لگن ، جدوجہد اور محنت سے منزل کو پانے کی کوشش کرتا ہو۔
کامیابی تو اسی نے پائی
جس کو مشکل سے گزرنا آیا
آج مغربی تہذیب کے پروردہ لوگوں کےلئے ایک خوبصورت شعر جو بلاشبہ نئی نسل کےلئے عبرت ہے۔
نئی تہذیب کے دلدادہ لوگ
بے حیائی کو حیا کہتے ہیں
بشریٰ مری حیات کا منظر بدل گیا
جب خواب عشق مرا حقیقت میں ڈھل گیا
کیا جانے کس بزرگ کی کام آگئی دعا
بادل مصیبتوں کا مرے سر سے ٹل گیا
سو بار اس کے عزم کو کرتے ہیں ہم سلام
ٹھوکر جو کھا کے راہ وفا میں سنبھل گیا
بچوں کے ساتھ میں جو سحر کھیلتی رہی
اور ان کو ہنستا دیکھ کے دل بھی بہل گیا
میں نے پوری کتاب کا ”نمودِ سحر“ کا بغور مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچی کہ شاہدہ بشریٰ سحر نے زندگی کے تلخ حقائق و تجربات اور مشاہدات کا جائزہ لیا ہے۔ درد و کرب جو انکے ذہن میں پیوست ہے۔ اشعار کے آبشار سے پھوٹ پڑتے ہیں۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے اور اسے اشعار کے گوہر سے پروکر اشعار کا ایک خوبصورت گلدستہ تیار کیا جو ”نمود سحر“ انکا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ میں ان کی اس شاہکار تخلیق پر تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتی ہوں اور بارگاہ رب العزت میں سجدہ ریز ہو کر دعا کرتی ہوں کہ خدا انہیں صحت کے ساتھ طویل عمر عطا کرے۔

غزل
۔۔۔۔۔
ایک انسان بدلتا ہے جو پیکر کتنے
میری آنکھوں نے دکھائے ہیں وہ منظر کتنے
اپنی طاقت پہ بہت ناز جو کرتے تھے کبھی
مل گئے خاک میں وہ ظلم کے لشکر کتنے
عہد ماضی کے جھروکوں سے جو جھانکا میں نے
زلزلے آئے مرے قلب کے اندر کتنے
بن گئی شاخ ثمر دار مری ہستی جب
لالچی ہاتھوں سے پھینکے گئے پتھر کتنے
سرنگوں کر دیا طوفاں نے انھیں پل بھر میں
سر اٹھائے تھے کھڑے پیڑ تناور کتنے
جب بھی پھیلی ہے زمانے میں سحرؔ گمراہی
آئے لوگوں کی ہدایت کو پیمبر کتنے

غزل
۔۔۔۔۔
درسِ وفا بطرزِ جفا دے گیا مجھے
کیا جانے کس خطا کی سزا دے گیا مجھے
دل پر ابھی بھی لذتِ الفت کا ہے اثر
عہد شباب ایسا مزا دے گیا مجھے
خوشبو کی طرح زندہ رہو اس زمانے میں
اک پھول کھل کے درس بقا دے گیا مجھے
میں بن کے پھول راہ میں جس کی بکھر گئی
وہ خار بن کے زخم ہرا دے گیا مجھے
کہتے ہیں غم اٹھانے کو زندہ رہیں گے آپ
وہ بددعا کے ساتھ دعا دے گیا مجھے
میں اپنے حسن کی بھی نمائش نہ کرسکی
میرا ضمیر درسِ حیا دے گیا مجھے
ایسی تو زندگی نے پلائی نہ تھی کبھی
جام قضا عجیب مزہ دے گیا مجھے
بشریٰ وہ ہمسفر مرا راہوں میں کھوگیا
جو منزل وفا کا پتا دے گیا مجھے

غزل
۔۔۔۔۔
میری خوشیوں سے ہے یوں دیدۂ تر کا رشتہ
جیسے ہوتا ہے شبِ غم سے سحر کا رشتہ
اپنے پیروں کے میں چھالوں کی طرف کیوں دیکھوں
تیری چاہت سے ہے جب میرے سفر کا رشتہ
آج کل کون سمجھتا ہے کسی کے غم کو
کس سے منسوب کروں زخم جگر کا رشتہ
آنسوؤں سے مری آنکھوں کا وہی رشتہ ہے
جیسے ہوتا ہے سمندر سے بھنور کا رشتہ
میرے دل میں تری چاہت بھی اسی صورت ہے
جس طرح نیل گگن سے ہے قمر کا رشتہ
بس یہی میری تمنا ہے جبیں سائی کی
اس کے در سے رہے قائم مرے سر کا رشتہ
اس سے ہے میرا تعلق بھی اسی طرح سحرؔ
جس طرح شاخ سے ہوتا ہے ثمر کا رشتہ

Shares: