(قصہ درد 2)
کچھ روز پہلے قلم سے سر قلم کروانے کا شوق اچانک انگڑائی لے کر بیدار ہوا تو قصہ درد کہہ ڈالا، پنجاب حکومت، محکمہ تعلیم اور وزیر تعلیم کو مخاطب کر کے اساتذہ کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد ایک معاشرتی موضوع پر لکھنے کی کوشش کی لیکن طبیعت میں وہ روانی نہ تھی۔ کچھ کمی تھی۔ تبھی عنوان بہ ہیت شعر آیا
میرے لہو کو چھڑک دو تمام گلشن میں میری وفاوں پے انگلی اٹھا رہا ہے کوئی آج دوبارہ سوچا تو خیال آیا کہ قصہ درد ایک نہیں یہ تو داستان امیر حمزہ سے طویل اور بلبل ہزار داستاں سے ضخیم ہے۔ سابقہ تحریر پر کچھ قارئین نے رائے دی ہے کہ الفاظ کا انتخاب آسان کریں ۔ ان کی رائے کا بھی شکریہ۔ شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے کے مصداق کچھ ایسا ہی انتخاب
پچھلی تحریر میں الفاظ ہوا
خیر قصہ مختصر آج کا موضوع مالی معاملات حکومت اور اساتذہ سے جڑا ہے۔ سرکاری سکولز میں بیس روپے ماہانہ فروغ تعلیم فنڈ کے نام سے ہر طالب علم سے لیا جاتا ہے۔ جن طلباء کے بارے ہیڈ ماسٹر کو علم ہو وہ یہ 20 روپے کی خطیر رقم بیک جنبش قلم معاف بھی کر سکتا ہے۔ آہ ہمارے چھوٹے چھوٹے اختیارات اب وصولی ایف ٹی ایف یعنی فروغ تعلیم فنڈ حکومت و محکمہ کے احکامات ہیں کہ اسے بینک میں جمع کرایا جائے 5000 روپے سے زائد رقم چوبیس گھنٹے سے زائد پاس رکھنا محکمانہ اجازت نہ ہے. اس رقم کو سکول کے اکاونٹ میں جمع کرایا جاتا ہے پھر اخراجات کے لیے دوبارہ بذریعہ چیک نکلوایا جاتا ہے۔ ایک اور اکاونٹ نان سیلری بجٹ NSB ہے ، جو کہ سکول کے نام پر بینک میں کھولا جاتا ہے۔ یہاں سے وہ رام کہانی شروع ہوتی ہے جس کو پڑھ کر بقول مشتاق یوسفی( مرد قتل کردیتے یا ہیں خودکشی) سکول مینیجمنٹ کونسل کے نام سے مقامی افراد کی ایک کمیٹی ہر سکول میں موجود ہے جس کا ہر ماہ اجلاس ہوتا ہے اس کمیٹی کا مقرر کردہ رکن این ایس بی اور ایف ٹی ایف فنڈز دونوں اکاونٹس کا شریک دستخط یعنی کو سگنیٹری ہوتا ہے۔ شریک چئیرمین کے دستخط بینک میں جوائنٹ اکاونٹ میں اپ ڈیٹ کرانے کے لیے نئی بینکنگ پالیسی کے تحت ہیڈ کی سیلری سلپ اور کو سگنیٹری کی آمدن کے ثبوت کے لیے اس کی زمین زرعی کا فرد یا کوئی بھی آمدن کا ثبوت دینا ہوتا ہے۔ اب لطیفہ یہ ہے کہ دونوں اکاونٹس کی آمدن گورنمنٹ کے فنڈَز سے ہے لیکن بینک پتہ نہیں کیا سمجھ کر ڈیل کر رہے ہیں۔

خود پر بیتی ایک داستاں سناتا کہ چند سال پہلے ایک بینک منیجر نے این ایس بی اکاونٹس کے بارے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ بے نامی اکاونٹس عنقریب بند کر دیے جائیں گے عرض کی یہ پنجاب حکومت کے بی ہاف پر کھولے گئے ہیں ارشاد ہوا ہیں تو بے نام اکاونٹس سے ملتے جلتے نہ کوئی انسانی اکاونٹ ٹائٹل نہ آمدن کا کوئی واضح ذریعہ۔ خیر یہ تو حکومت پنجاب، اور تعلیم کے محکمہ میں وزارت کے لیول کی نا اہلی ہے۔ آگے چلتے ہیں۔ ہر خریداری جو ان اکاونٹس سے کی جائے اس پر مختلف رقم پر مختلف ٹیکس دینا لازمی ہے۔ یعنی پہلے لاہور سے رقم سکولز کے اکاونٹس میں اور پھر اسی رقم پر ٹیکس باالفاظ دیگر حکومت ہی حکومت سے ٹیکس لے رہی۔ اساتذہ ٹیکس نہ دیں تب بھی مرتے اور دیں تو ایک نئی داستاں۔ چلیں یہ تو ہوئی انتطامی نا اہلی۔ اب رقم بینک سے بذریعہ چیک نکلوانے کے لیے سب سے پہلے تو سکول کونسل کا اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں اس امر کی توثیق کی جاتی ہے کہ پیسے نکلوانے کی واقعی ضرورت ہے اس کے بعد اس اجلاس سے ایک دو یا تین رکنی کمیٹی برائے خریداری بذریعہ منظور شدہ رقم تشکیل پاتی ہے۔ پھر ہیڈ یا کو سگنیٹری بینک جا کر رقم نکلواتے ہیں اب چونکہ 5000 سے زائد کیش پاس رکھنا ممنوع ہے لہذا رقم نکلوانے کے فوراً بعد مطلوبہ شے کو تلاش کر کے اس کی خرید و ادائیگی ہوتی ہے ساتھ سی نیا کام شروع اب بل لینا ہے اور بل پر رقم سکول کانام پتہ مقدار شے نرخ۔ الگ و واضح درج ہوں دوسرے بل پر رسید ادائیگی ہو اب ان دونوں بلز کو لاکر اخراجات کے بلز کی فائل میں محفوظ کرنے سے پہلے بل کی پشت پر ایک مرتبہ پھر چند ایس ایم سی ممبران اور ہیڈز دستخط کریں گے اور رسیدی ٹکٹ بھی لگایا جائے گا۔ جو چیز جس مقصد کے لیے خریدی گئی اگلے اجلاس میں وہ کمیٹی کو معائنہ و ملاحظہ کرائی جائے گی اور اجلاس کی کاروائی تحریر کر کے اس پر ایک بار پھر دستخط ہوں گے۔

اب چلتے ہیں حکومتی و محکمانہ ہدایات کی طرف کہ خریداری صرف اس دکان سے کریں جو این ٹی این رجسٹرڈ ہو ٹیکس کے معاملات میں ایڈوانس ٹیکس ادا کر رہی ہو اور جب ان کے ہاتھ سکول ہیڈز آتے تو وہ ایڈوانس ٹیکس جمع کرا چکے ہوتے لہذا وہ رقم بھی اوور چارجنگ کر کے پوری کی جاتی یا اشیاء کی کوالٹی کم کر دی جاتی۔ اگر خریداری خود کی تو شرح ٹیکس کے حساب سے اس شے کی قیمت کے ساتھ ٹیکس الگ جمع کرانا لازمی ہے۔ یعنی پہلے ایک ادارہ یعنی محکمہ تعلیم اپنے زیر سرپرستی چلنے والے اداروں کو رقم دیتا ہے۔ اس رقم کو بینک اپنی پالیسی کے تحت الگ سے ماہانہ یا سہ ماہی 49 روپے، 35 روپے کٹوتی کرتا ہے پھر وہی رقم کیش ہو کر حکومت کو کچھ حصہ ٹیکس کی شکل میں واپس کر دیا جاتا ہے۔ بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ قصہ درد جاری ہے۔ درخت کاٹنا وہ بھی سکول میں پرانے اساتذہ کے مطابق بندہ مارنے کے برابر جرم ہے۔ اب بڑا درخت بعض دفعہ کٹوانا لازم ہو تو،
(کیونکہ چاردیواری کے قریب یا پانی کے بور کے نزدیک جڑیں و ٹہنیاں مسائل بناتی ہیں ) اب اس جرم ضعیفی کی سزا سنیں۔

سب سے پہلے وہی اجلاس سکول کونسل، پھر من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو کے مصداق اجلاس میں تائید اس کے بعد چین آف کمانڈ کو ملحوظ خاطر رکھ کر اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر کو درخواست اس کی منظوری کے بعد ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن سے منظوری۔ ٹھہریں۔۔۔۔۔ دلی ہنوَز دور است۔ اب ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر محکمہ جنگلات کو لیٹر لکھے گا اس کے بعد محکمہ جنگلات اپنے سٹاف کے ذریعے سکول کا وزٹ کرے گا اور درخت کو جانچ کر اس کی متوقع قیمت مقرر کر کے ڈپٹی ڈی ای او کو تحریری رپورٹ دے گا اب ہیڈ کو کم از کم مقررہ ریٹ پردرخت بیچنے کی اجازت بذریعہ دفتر ایجوکیشن آفس ملے گی اور درخت کو (لکڑی) بیچ کر جو رقم ملے گی اسے اکاونٹ میں جمع کرانا لازمی چاہے کتنی ہی ضروری پیمنٹ ہو ایک دفعہ پیسے اکاونٹ ایف ٹی ایف میں جائیں گے پھر نکلوا لیجئے۔

تماشا دیدنی ٹھہرا مگر دیکھے گا کون؟

اب چلتے ہیں آڈٹ کی جانب اصول یہ ہے کہ مالی سال کے بلز باترتیب ایک فائل میں ہوں۔ فائل میں موجود بل پر مالک دکان کی مہر و دستخط ہوں۔ بل کی پشت پر ہیڈ اور کو سگنیٹری سمیت دیگر اراکین کے دستخط یوں۔ جس رقم کا آڈٹ ہو رہا ہے اس کو خرچ کرنے کی منظوری کا تحریری اجلاس ایس ایم سی درج ہو۔ سٹاک رجسٹر پر تحریر ہو ساتھ ہی ساتھ SIS سکول انفارمیشن سسٹم ایپ پر بھی چیک نمبر، تاریخ اور خریداری یا خرچ تحریر ہو۔ اس سارے لایعنی اور بے مقصد عمل سے مالی بے ضابطگی سے بچنے اور اخراجات شفاف کرنے میں مدد ملتی ( بقول بلکہ بحکم محکمہ تعلیم ). اس سارے عمل میں اتنی پیچیدگی ہے کہ شفاف ادائیگی بھی ضابطے کی کاروائی میں کے داو پیچ کی تاب نہ لاکر مشکوک ٹھہرتی جس سے ایک اور مسئلہ لاینحل کھڑا ہوتا ہے آڈٹ آبجیکشن۔ جس کے بعد ہیڈ ٹیچر کو لاہور، ضلع اور تحصیل کے درمیان شٹل کاک بنا دیا جاتا ہے ۔ اتنی زیادہ بے ترتیب اور لایعنی ہدایت کے بعد پڑھانے کے لیے نہ وقت ملتا ہی ہمت۔ تھک ہار کے جب سونے کو لیٹتے تو کسی نہ کسی نے سوشل میڈیا پر لکھا ہوتا اساتذہ کی تنخواہیں بہت زیادہ اور کام کم ہے۔ اللہ کے بندے ٹیچرز کی اوسط تنخواہ اس تمام عمل سے گزرنے کے باوجود، نوکری پر روز ایک شرط، پینشن غیر یقینی پھر بھی اگر زیادہ ہے تو بند کر دیں ویسے بھی بچتا تو کچھ نہیں بس دل کے بہلانے کو ہم بھی یہ نوکری کر رہے۔ اساتذہ کو ریلیف دینا ہے تو خدارا مشکل مبہم اور بے کار وقت ضائع کرنے والے ان کاموں سے ان کی جان چھڑوائیں بلکہ خود بھی چھوڑ دیں۔ خواتین ہیڈذ کبھی بینک کبھی آڈٹ میں پھنس کر گھر میں کام چھوڑ کر یہ تمام ضابطے کی کاروائی مکمل کرتے کئی مرتبہ دیر سے واپس جاتی ہیں غیر معمولی مسائل اور خانگی مسائل کے حوالے سے جس مشکل کا سامنا کرتی ہیں اس کا بھی احساس کم از کم حکومت کو نہیں۔ ویسے بھی حکومت کا تو کام ہی وہ کروانا کہ بندہ کرپٹ نہ ہوکر بھی جب ان بھول بھلیوں میں پھنسے تو مجبوراً کرپٹ ہوجاتا۔ آخری بات کہ خدا را اس عمل کو آسان کیجیے آڈٹ کا طریقہ بدلیں چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی بدلیں اس کے بعد جو کرپشن کرے بے شک نوکری سے نکال دیں لیکن یہ جو کچھ ہو رہا یہ ختم کریں
اس کا جواب ایک ہی لمحے میں ختم تھا (پالیسی میٹرز)
پھر بھی مرے سوال کا حق دیر تک رہا

قوم کے معمار،ظلم وجبر کا شکار

Shares: